Friday, October 14, 2011

the love of nation by imam khamenei




رہبر معظم سے ملک کے ممتازدانشوروں کی ملاقات (۲۰۱۱/۱۰/۰۵ - ۱۸:۳۲)
اسلامی جمہوریہ ایران کو پیشرفت ، عزت اور افتخار کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئےایسے ممتازدانشوروں کی ضرورت ہے جو ملک و قوم اور قومی تشخص و سرنوشت کے ساتھ والہانہ عشق و محبت رکھتے ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا یہ سفارشی جملہ ان ہزار جوان دانشوروں کے لئے تھا جنھوں نے آج صبح ڈھائی گھنٹے تک رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات اور تبادلہ خیال کیا۔

اس ملاقات کے آغاز میں یونیورسٹی کے 12 ممتاز دانشوروں نے ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ تک سیاسی ، سماجی ، اقتصادی، ثقافتی، علمی اور یونیورسٹیوں کے مسائل کے بارے میں دانشورطبقہ کے نظریات کو پیش کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دانشوروں کی گفتگو سننے اور ان کے بعض نکات یاداشت کرنے کے بعد اس بنیادی نکتہ کو ملک کے دانشور سیاسی ، علمی ، اور ثقافتی طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دانشوروں کو ملک و قوم کے ساتھ معنوی لگاؤ و دلچسپی کے احساس کے ساتھ فداکاری اور تلاش و کوشش کرنی چاہیے کیونکہ دانشور بغیر عشق و محبت کے ملک و قوم اور معاشرے کی سرنوشت میں اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کرسکتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض تاریخی اور موجودہ تجربات کی طرف اشارہ کیا اور دین سے وابستگي کے بغیر قدرت کو ظلم و استبداد کا مظہر قراردیا اور اس حقیقت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی قوم موجودہ پر تلاطم دنیا میں اپنی حفاظت کرنا چاہتی ہے اور دنیا کی منہ زور طاقتوں کے فوجی وسکیورٹی حملوں اور ثقافتی و اخلاقی اور سافٹ ویئر یلغار کو روکنا چاہتی ہے تو اسے ممتاز دانشوروں اورعلمی ماہرین کی سخت ضرورت ہے جن کی تمام کوششیں اور ہم و غم ملک و قوم کی ترقی، پیشرفت ، عزت اور افتخار پر مبنی ہو اور ایمان ایک ایسا اہم عامل ہے جو اس اندرونی احساس کو عمیق و گہرا بناسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحالیہ 33 برسوں میں ایرانی قوم کی ترقیات و پیشرفت میں ملک کےدانشوروں کی محبت ،عشق ،لگاؤ اور ایمان پر مبنی احساسات اورجذبات کو اہم قراردیتے ہوئےفرمایا: اغیار کی طرف سے ہر قسم کے دباؤ کے باوجود شہید شہریاری جیسے سیکڑوں ممتاز ، برجستہ اور ماہر دانشور، مختلف شعبوں میں فداکاری، تلاش و کوشش کے ذریعہ عظیم اور یادگار کاموں میں مشغول ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی مباحث میں اغیار کے ساتھ جنگ و ستیز کو رد کرتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم علم و دانش کے حصول کے لئے شاگرد بننے کے لئے تیار ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ شاگرد بھی نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں ایرانی قوم کو اس مقام تک پہنچا دیں تاکہ دوسرے لوگ اس کی شاگردی اختیارکریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمغربی ممالک کے سامنے پہلوی حکومت کے عناصر اور سیاستدانوں کی وابستگی اورحقارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ لوگ، ایران کے درخشاں و تابناک ماضی اور عظیم فکری و ثقافتی ذخائر کو مغربی ممالک کے سامنے کچھ نہیں سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی نے اس رجعت پسند فکر کو ختم کردیا اور ملک آج احساس ذمہ داری، دانشوروں اور قوم کے پختہ عزم و ارادہ کے سائے میں ترقی و پیشرفت کی راہ پر گامزن ہے اور انشاء اللہ ترقی و پیشرفت کی بلند چوٹیوں کی سمت گامزن رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکومتی اہلکاروں کو علم و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: یہ اہم کام علمی اداروں ، علمی مراکز اور یونیورسٹیوں میں مدیریت کے ارتقاء کے ہمراہ انجام پانا چاہیےتاکہ اس کے درخشاں اور اہم نتائج سامنے آئیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اور صنعت کے ارتباط کے سلسلے میں ریسرچ سینٹروں، علمی و تحقیقاتی اداروں کے فروغ کے لئے حکومتی منصوبہ بندی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس قسم کے علمی مراکز صنعتی شعبہ کی ضروریات کو خلاقیت، نوآوری اور اچھی کیفیت کے ساتھ پورا کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ کام یونیورسٹیوں میں بھی شوق و نشاط اور علمی ترقی و فروغ میں مددگار ثابت ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعض شعبوں میں اچھی اور عمدہ محصولات کی طرف اشارہ کیا اور حکومت کو غیر ملکی وسائل و آلات کو درآمد نہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

صدر جمہوریہ حکومتی اداروں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اس سلسلے میں غیر ملکی وسائل اور ٹیکنالوجی خریدنے سے اجتناب کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت پر زوردیاکہ وہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والے صنعتکاروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے بینکوں اور حکومتی اداروں کو پابند بنائے اور زراعت کے شعبہ میں بھی پیداوار کوفروغ دینے کے لئے بھر پور تعاون کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی مقالات کی کمیت و کیفیت کے رشد و فروغ پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: مقالات کی کمیت کو ہدف قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ مقالات کی کیفیت پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے اور اس سے بھی اہم امر یہ ہے کہ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کی خدمت کے لئے با ایمان اور جوش و جذبہ سے سرشار جوانوں کو ملک کی پیشرفت کے لئے عظیم اور گرانقدر سرمایہ قراردیا اور دانشوروں کے بیانات میں تنقیدکا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اور حکام نے بلند اور عظیم اہداف کی جانب دشوار راستہ پر چلنا شروع کیا ہے اور اس راستے میں کمزور نقاط اور اشکالات کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے لیکن ان مسائل و مشکلات کی خاطر عظیم اہداف کی جانب حرکت میں تزلزل پیدا نہیں ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک جوان دانشور کی طرف سے ثقافتی مراکز میں جوان دانشوروں کے لئے مواقع فراہم نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ درخواست ، منطقی ہے اور بعض شعبوں میں جوانوں کی موجودگی بہت ہی اہم اور مفید ہے لیکن جوانوں کا اجرائی شعبہ میں کام کرنے کے بجائے ان کا فکری حضور کہیں زيادہ مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یہ عمل حکام اور اعلی مدیروں کو جوانوں کے نظریات کی جانب گامزن رہنے میں مدد فراہم کرےگا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے متعدد بار آزاد فکری کرسیوں کی تشکیل کے مسئلہ پر تاکید اور اس سلسلے میں عدم اہتمام پر تنقید کرتے ہوئےفرمایا: جوانوں کو چاہیے کہ وہ فکر کرنے، لکھنے اور آزاد فکری کرسیوں میں اپنے نظریات منعکس کرنے کے ذریعہ گفتگو اور تبادلہ خیال کا ماحول پیدا کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ برسوں میں علمی حرکت اور علم کی پیداوار کا اہم ہدف میں تبدیل ہونا ایک دہائی سے زيادہ عرصہ میں علمی آراء کےتضارب کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں علم و ٹیکنالوجی کی صدارتی معاونت اور قومی دانشوروں کے ادارے میں انجام پانے والے اقدامات بالخصوص قومی دانشوروں کی سند و دستاویز کی تدوین کو بہت ہی عمدہ قدم قرار دیتے ہوئے فرمایا: قومی دانشوروں کی سند و دستاویز بہت اہم اور ضروری قدم ہےکیونکہ اس سے صلاحیتوں کی شناخت، دانشوروں کی تربیت کے لئےصلاحیتوں کی پرورش اور دانشور کے عنوان کےبعد کے مراحل کا راستہ ہموار ہوجائےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جلد از جلد اس سند کے منظور اور نفاذ کی امید کا اظہار کیا۔

اس ملاقات کے آغاز میں جوان دانشوروں کے اجلاس کے پانچوں کمیشنز کے ترجمانز نے یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور سیکڑوں دانشوروں کی بحثوں کے نتائج کا خلاصہ بیان کیا اور ان پانچوں کمیشنز کے دانشوروں کے نام حسب ذیل ہیں:

ڈاکٹر نیما رضائی : تہران میڈیکل یونیورسٹی کے علمی رکن، سلامت کمیشن کے ترجمان

سید سعید سرافراز: 86 ہجری شمسی میں علمی مقابلوں میں گولڈ میڈل، انرجی کمیشن کے ترجمان

حسن نیک آئین: کامپیوٹرکے علمی مقابلوں میں چاندی کا میڈل، صنعت کمیشن کے ترجمان

ڈاکٹر علی رضا شائستہ: عالمی کیمیاوی علمی مقابلوں میں گولڈ میڈل، علوم انسانی کمیشن کے ترجمان

سعید صالحی پور: ریاضی کے علمی مقابلوں میں گولڈ میڈل ، علوم پایہ کمیشن کے ترجمان

اس ملاقات میں مذکورہ افراد نےملک میں مدیریت کے تحول اور مدیریت کے مختلف شعبوں میں دانشوروں کی شناخت، جذب اور تربیت کے اصلی نکات بیان کئے۔ جوان دانشوروں کے اجلاس کے کمیشنز کے ترجمانز نے مدیریتی نظام میں ایک صریح تنقید کی اور ایک مثبت نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا: ایسے مدیروں پر تنقید جوانفرادی مدیریت کے پیچھے ہیں اور دانشوروں کو کوئي خاص اہمیت نہیں دیتے ہیں اور ان مدیروں اور حکام کے نظریہ کا خیر مقدم جو مدیریتی نظام میں اجتماعی عقل و خرد و باہمی مشورے کو اپنے مدیریتی نظام کا محور قراردیتے ہیں۔

ملک کو مختلف شعبوں میں جامع نقشہ کی تدوین کی ضرورت دوسرا مشترک نکتہ تھا جسے سلامت، انرجی، صنعت، علوم انسانی و علوم پایہ کے کمیشنز کے ترجمانز نے بیان کیا۔

معاشرے میں دانشوروں کے مؤثر کردار کے پیش نظر دانشوروں پر ثقافتی کام کی اہمیت، ملک کے شرائط پر دانشوروں کی صحیح نگاہ اور بالغ النظری، دانش بنیان اداروں کی مشکلات کا حل، صنعتی و اجرائی مراکز اور نظریہ پرداز دانشوروں کے درمیان ارتباط ، اعلی ٹیکنالوجی اور توسیع علوم کے لئے جدید علوم پر خصوصی توجہ، ملک کے اندر علمی صلاحیتوں کے ارتقاء کے لئے ضروری وسائل کی فراہمی اور دانشوروں کے علمی ادارے کے بعض نقائص منجملہ دانشوروں کی تربیت اورہنر و سینما کے شعبوں میں مقامی نمونوں کی پیداوار دیگر ایسے نکات تھے جو دانشوروں کے اجلاس کی جمع بندی میں پیش کئے گئے۔

اس جمع بندی کے بعدمزید 7 دانشوروں نے مختلف شعبوں میں اپنے نظریات پیش کئے ان افراد کو دانشوروں نے ایک سو دانشوروں کے درمیان سے انتخاب کیا جو اپنے نظریات بیان کرنے کے لئے آمادہ تھے۔ ان جوان دانشوروں کے نام حسب ذیل ہیں:

٭ مہتاب ترک بیات: ہنر امتحانات میں تیسری پوزيشن، ہنر کالج میں بی اے کے طالب علم

٭ سید محمد آقا میر: فیزيکس علمی مقابلوں میں تیسری پوزيشن، صنعتی شریف یونیورسٹی میں مدیریت میں ایم اے کے طالب علم

٭ جعفر حسنی: تربیت مدرس یونیورسٹی میں ڈاکٹری میں پہلی پوزیشن

٭ آزیتا بلالی اسکوئی: فارابی و خوارزمی فیسٹیول میں ممتاز پوزیشن، تبریز یونیورسٹی کی علمی رکن

٭ میر ہادی رہگشائی: فیزيکس علمی مقابلوں میں گولڈ میڈل، صنعتی شریف یونیورسٹی کے طالب علم

٭ خدیجہ مظفری: حقوق کے علمی مقابلوں میں تیسری پوزيشن، تہران یونیورسٹی کی طالبہ

٭ ناصر صباغ نیا: زراعت انجینئرنگ میں پہلی پوزيشن

دانشوروں نے اس مرحلے میں بہت سے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، سماجی ،علمی اور یونیورسٹیوں کے بہت سے مسائل کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے ۔

قدیمی دروس اور ہنری شعبہ میں مغربی تقلید پر تنقید،ثقافتی مدیریتی مراکز میں جوان دانشوروں سے استفادہ بالخصوص اعلی ثقافتی کونسل میں دانشوروں کے استفادہ پر تاکید، شہروں کی آرائش و زیبائی میں اسلامی – ایرانی معماری پر توجہ کی ضرورت، ایسے نکات تھے جنھیں دانشوروں نےثقافتی و سماجی مسائل کے بارے میں بیان کیا،جوان دانشوروں نے اسی طرح حوزہ و یونیورسٹی کے درمیان تعامل کی فضا میں کمی، علمی مقالات و تحقیق کے شعبہ میں کمیت پر خصوصی توجہ کا حاکم ہونا،یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان ارتباط میں کمزوری، اجرائی حمایت و تعاون میں کمی، اندرونی سطح پر اقتصادی و ثقافتی مسائل بیان کئے اورقضائی نظام کی اصلاح کے لئے تحقیقاتی کرسیوں کے ایجاد کرنے کا مطالبہ کیا اور زراعت کے شعبہ میں حکومت کی زیادہ توجہ مبذول کرنے پر بھی زور دیا۔

علم و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں صدر کی معاون محترمہ سلطانخواہ نے بھی اس ملاقات میں اپنے خطاب میں کہا: اجرائی اداروں میں دانشوروں کو جذب کرنے کے سلسلے میں سہولیات فراہم کرنے کے لئے آئین نامہ کی تدوین ، دانشوروں کو جذب کرنے کے لئے کونسلوں کی تشکیل،دانش بنیان اداروں میں کاروبار کے لئے دانشوروں کے ورود کے لئے راہیں ہموار کرنا، ملک میں دانشوروں کے لئے تحصیل علم کو جاری رکھنے کے لئے اقدامات اور دانشوروں کو ڈاکٹری وظیفہ اعطا کرنے کے سلسلے میں اقدامات کو قومی دانشوروں کے ادارے کے اہم اقدامات قراردیا۔

ملک کے قومی دانشور ادارے کی سربراہ نے دانشوروں کے بارے میں ملک کی اہم سند کی تدوین کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا: اس قومی سند کی تدوین آخری مراحل میں ہےاور اسے آمادہ کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کی اعلی ثقافتی کونسل میں پیش کیا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment