Friday, October 14, 2011
معرفت اہلبیت (ع)
معرفت اہلبیت (ع)
قیمت معرفت اہلبیت (ع)
۔ رسول اکرم ۔ جس شخص کو پرورگار نے میرے اہلبیت (ع) کی معرفت اور محبت کی توفیق دید گویا اس کے لئے تمام خیر جمع کردیا۔(امالی صدوق (ر) 383 /9 ، بشارة المصطفیٰ ص 186)۔
94۔ رسول اکرم۔ معرفت آل محمد جہنم سے نجات کا وسیلہ ہے اور حب آل محمد صراط سے گذرنے کا ذریعہ ہے اور ولایت آل محمد عذاب الہی سے امان ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 78 /16 ، فرائد السمطین 2 ص257 ، احقاق الحق 18 / 496 ۔ 9/494)۔
95۔ سلمان فارسی میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ پروردگار نے ہر نبی اور رسول کے لئے بارہ نقیب معین فرمائے ہیں تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان۔ ان بارہ کی معرفت کا فائدہ کیاہے؟ فرمایا سلمان ! جس نے ان کی مکمل معرفت حاصل کرلی اور اقتدا کرلی کہ ان کے دوست سے محبت کی اور دشمن سے بیزاری اختیار کی وہ خدا کی قسم ہم سے ہوگا اور وہیں وارد ہوگا جہاں ہم وارد ہوں گے اور وہیں رہے گا جہاں ہم رہیں گے۔(بحار الانوار53/142۔162 ، 25 ص6 ،9)۔
96۔ امیر المومنین (ع) ، خوش بخت ترین انسان وہ ہے جس نے ہمارے فضل کو پہچان لیا اور ہمارے ذریعہ خدا کا قرب اختیار کیا اور ہماری محبت میں اخلاص پیدا کیا اور ہماری دعوت پر عمل کیا اور ہمارے روکنے سے رک گیا ، یہی شخص ہم سے ہے اور جن میں ہمارے ساتھ ہوگا۔( غرر الحکم ص 3297)۔
97 ۔ امام (ع) صادق کا بیان ہے کہ امام حسین (ع) اپنے اصحاب کے مجمع میں آئے اور فرمایا کہ پرودرگار نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ اسے پہچانیں اس کے بعد جب پہچان لیں گے تو عبادت بھی کریں گے اور جب اس کی عبادت کریں گے تو اغیار کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔
ایک شخص نے عرض کی کہ معرفت خدا کا مفہوم اور وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا ہر زمانہ کا انسان اس دور کے اس امام کی معرفت حاصل کرے جس کی اطاعت واجب کی گئی ہے( اور اس کے ذریعہ پروردگار کی معرفت حاصل کرے) ( علل الشرائع 9/ 1ز سلمہ بن عطاء ، کنز الفوائد 1 ص 328 ، احقاق الحق 11/594)۔
98۔ امام باقر (ع) ! خدا کو وہی شخص پہچان سکتاہے اور اس کی عبادت کرسکتاہے جو ہم اہلبیت (ع) میں سے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل کرلے۔ (کافی 1/181 از جابر)۔
99۔ زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ ذرا معرفت امام کے بارے میں فرمائیں کہ کیا یہ تمام مخلوقات پر واجب ہے ؟ فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو تمام عالم انسانیت کے لئے رسول اور تمام مخلوقات کے لئے اپنی حجت بناکر بھیجا ہے لہذا جو شخص بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرے اس پر امام اہلبیت (ع) کی معرفت بہر حال واجب ہے۔( کافی 1 ص 180 / 3)۔
100۔ سالم ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا ” ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے منتخب بندوں کو قرار دیا ہے جن میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، بعض درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں کے ساتھ سبقت کرنے والے ہیں ” کہ ان سب سے مراد کون لوگ ہیں “؟
فرمایا سبقت کرنے والا امام ہوتاہے، درمیانی راہ پر چلنے والا اس کا عارف ہوتاہے اور ظالم اس کی معرفت سے محروم شخص ہوتاہے۔(کافی 1 ص 214/1)۔
101۔ زرعہ ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کی کہ معرفت کے بعد سب سے عظیم عمل کونسا ہے؟ فرمایا معرفت کے بعد نماز کے ہم پلہ کوئی عمل نہیں ہے اور معرفت و نماز کے بعد زکٰوة کے برابر کوئی کام نہیں ہے اور ان تینوں کے بعد روزہ جیسا کوئی عمل نہیں ہے اور روزہ کے بعد حج جیسا کوئی عمل نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھنا کہ ان سب اعمال کا آغاز و انجام ہم اہلبیت (ع) کی معرفت ہے اور اس کے بغیر کسی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ( امالی طوسی (ر) 694 / 1478)۔
102۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے اور کسی شخص کو ہماری معرفت سے آزاد نہیں رکھا گیا ہے اور نہ اس جہالت میں معذور قرار دیا گیا ہے۔… اگر کوئی شخص ہماری معرفت حاصل نہ کرے اور ہمارا انکار بھی نہ کرے تو بھی گمراہ رہے گا جب تک راہ راست پر واپس نہ آجائے اور ہماری اطاعت ہیں داخل نہ ہوجائے ورنہ اگر اسی ضلالت پر مرگیا تو پروردگار جو چاہے گا برتاؤ کرے گا ۔( کافی 1 ص 187 / 11)۔
103۔ اما م صادق (ع) نے آیت کریمہ ” جسے حکمت دیدی گئی اسے خیر کثیر دیدیا گیا“ کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ حکمت سے مراد امام کی اطاعت اور اس کی معرفت ہے۔(کافی 1 ص185 /11 ۔ از ابوبصیر)۔
104۔ اما م صادق (ع) نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم کرائی ، خدایا مجھے اپنے معرفت عطا فرماکہ اگر میں تجھے نہ پہچان سکا تو تیرے نبی کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرمای کہ اگر انھیں نہ پہچان سکا تو تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کہ اگر اس سے محروم رہ گیا تو دین سے گمراہ ہوجاؤ گا ۔( کافی 1 ص 337 / 5 از زرارہ)۔
105۔ اما م رضا (ع) ائمہ معصومین کی قبروں کی زیارت کے ذیل میں فرمایا کرتے تھے کہ سلام ہو ان پر جو معرفت خدا کا مرکز تھے… جس نے ان کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جو ان کی معرفت سے جاہل رہ گیا وہ خدا سے بے خبر رہ گیا ۔( کافی 4 ص 578 / 2 ، کامل الزیارات ص 315 از علی بن حسّان)۔
مقام اہلبیت (ع)
1 ۔ مثال سفینہ نوح
106۔ حنش کنانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوذر کو در کعبہ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سناہے۔ کہ جس نے مجھے پہچان لیا وہ تو جانتا ہی ہے اور اگر کسی نے نہیں پہچانا تو پہچان لے میں ابوذر ہوں اور میں نے جانتا ہی ہے اور اگر کسی نے نہیں پہچانا تو پہچان لے میں ابوذر ہوں اور میں نے رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے کہ جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ ڈوب مرا ۔( مستدرک 3 ص 163 / 4720 ، فرائد السمطین 2 ص 246 ۔ 519 ، ینابیع المودة 1 ص 94 /5 شرح الاخبار 2 ص 501 / 887 ، امالی طوسی (ر) 6 ص 88، 733 ، 1532 ، کمال الدین ص 239 / 59 ، احتجاج 1 ص 361 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 937 ، مناقب ابن مغازلی ص 132 ، 134 ، بشارة المصطفیٰ ص 88 رجال کشی 1 ص 115 / 52)۔
107 ۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ ہم سب سفینہ نجات ہیں جو ہم سے وابستہ ہوگیا نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ ہلاگ ہوگیا ۔ جس کو اللہ سے کوئی حاجت طلب کرنا ہو وہ ہم اہلبیت (ع) کے وسیلہ سے طلب کرے۔(فرائد السمطین 1 ص 37 از ابوہریرہ، احقاق الحق 9 ص 203 از ارحج المطالب)۔
108۔ امام علی (ع) نے کمیل سے فرمایا کہ کمیل رسول اکرم نے 15 رمضان کو عصر کے بعد مجھ سے یہ بات اس وقت فرمائی جب انصار و مہاجرین کا ایک گروہ سامنے تھا اور آپ منبر پر کھڑے تھے۔ یاد رکھو کہ علی (ع) اور ان کے دونوں پاکیزہ کردار فرزند مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، یہ سب سفینہٴ نجات ہیں جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ بہک گیا ، نجات پانے والے کی جگہ جنت ہے اور بہکنے والے کاٹھکانا جہنم کے شعلے ہیں۔( بشارة المصطفیٰ ص 30 از بصیر بن زید بن ارطاة)۔
109۔ امیر المؤمنین (ع) نے اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا خدا کی قسم میں نے کسی امر کی طرف اقدام نہیں کیا مگر یہ کہ میرے پاس رسول اکرم کی ہدایت موجود تھی خوشا بہ حال ان کا جن کے دلوں میں ہماری محبت راسخ ہوجائے اور اس کے وسیلہ سے ایمان کو احد سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوجائے اور یاد رکھو جس کے دل میں ہماری محبت ثابت نہ ہوگی اس کا ایمان اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتاہے۔
خدا کی قسم ۔ عالمین میں رسول اکرم کے نزدیک میرے ذکر سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں تھی اور نہ کسی نے میری طرح دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ میں نے بلوغ سے پہلے سے نماز ادا کی ہے اور یہ فاطمہ بنت رسول جو پارہ جگر پیغمبر ہے یہ میری شریک حیات ہے اور اپنے دور میں مریم بنت عمران کی مثال ہے۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) جو اس امت میں سبط رسول ہیں اور پیغمبر کے لئے دونوں آنکھوں کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح میں آپ کے لئے دونوں ہاتھوں کی جگہ پر تھا اور فاطمہ (ع) آپ کے وجود میں قلب کی حیثیت رکھتی تھیں ، ہماری مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ڈوب مرا ۔(کتاب سلیم بن قیس 2 / 830)۔
110۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ جس نے ہمارا اتباع کرلیا وہ نیکیوں کی طرف آگے بڑھ گیا اور جو ہمارے علاوہ کسی دوسرے سفینہ پر سوار ہوگیا وہ غرق ہوگیا ۔( غرر الحکم ص 7894 ، 7893)۔
111۔ امام زین العابدین (ع) ہم ہیں جو شدتوں کی گہرائیوں میں چلنے والے سفینوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا۔( ینابیع المودة 1 ص 76 / 12)۔
112۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے وقت نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے اور اس طرح صلوات بھیجتے تھے۔
” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر اور رسالت کے مرکز تھے، ان کے گھر ملائکہ کی آمد و رفت تھی اور وہ علم کے خزانہ دار اور وحی کے اہلبیت (ع) تھے، خدایا آل محمد پر رحمت نازل فرما جو شدتوں کے سمندروں میں نجات کے سفینے تھے کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا، ان سے آگے بڑھ جانے والا دین سے نکل جاتاہے اور ان سے دور رہ جانے والا ہلاک ہوجاتاہے۔ بس ان سے وابستہ ہوجانے والا ہی ان کے ساتھ رہتاہے۔(جمال الاسبوع ص 251۔
2۔ مثال باب حِطّہ
113۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ تمھارے درمیان میرے اہلبیت (ع) کی مثال بنياسرائیل میں باب حطہ کی ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا اسے بخش دیا گیا ۔( المعجم الاوسط 6 ص 85 / 5870، المعجم الصغیر 2 ص 22 ، صواعق محرقہ ص 152 ، غیبت نعمانی ص 44)۔
114۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ جو میرے دین کو اختیار کرے اور میرے راستہ پر رہے اور میری سنّت کااتباع کرے اس کا فرض ہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کو تمام امت پر مقدم رکھے کہ ان کی مثال اس امت میں بني اسرائیل کے باب حِطّہ جیسی ہے۔( امالی صدوق 69 / 6 تنبیہ الخواطر 2 ص 156)۔
115۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نو صلب حسین (ع) سے ہوں گے اور نواں قائم ہوگا ، یاد رکھو ان سب کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور ان کی مثال بني اسرائیل کے باب حطہ جیسی ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 ، کفایة الاثر ص 38 از ابوذر)۔
116۔ عباد بن عبد اللہ لا سدی کا بیان ہے کہ میں مقام رحبہ میں امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آکر اس آیت کے معنی دریافت کرے … کیا وہ شخص جو پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی ہو… تو آپ نے فرمایا کہ قریش کے کسی شخص پر لمحات عقیقہ کا گذر نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں قرآن میں کچھ نہ کچھ نازل ضرور ہوا ہے۔ خدا کی قسم یہ لوگ ہم اہلبیت (ع) کے فضائل اور رسول اکرم کی زبان سے بیان ہونے والے مناقب کو سمجھ لیں تو یہ ہمارے لئے اس وادی رحبہ کے سونے چاندی سے بھر جانے سے زیادہ قیمتی ہے۔ خدا کی قسم اس امت ہماری مثال سفینہ نوح (ع) کی ہے اور نبي اسرائیل کے باب حطہ کی ہے۔(کنز العمال 2 ص 434 / 4429، امالی مفید 145 / 5 شرح الاخبار 2 ص 480 ، 843 تفسیر فرات کوفی ص 190 / 243)۔
117۔ ابوسعید خدری ، رسول اکرم نے نماز جماعت پڑھائی اور اس کے بعد قوم کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا ۔ میرے صحابیو ! میرے اہلبیت (ع) کی مثال تمھارے درمیان کشتی نوح (ع) اور باب حطہ کی ہے لہذا میرے بعد ان اہلبیت (ع) اور میری ذریت کے ائمہ راشدین سے متمسک رہنا کہ اس طرح کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتے ہو۔
لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ، آپ کے بعد کتنے امام ہوں گے؟ فرمایا کہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔
فرمایاکہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔(کفایة الاثر ص 33 ۔ 34)۔
118۔ امام علی (ع) ! ہم باب حطہ اور باب السلام ہیں، جو اس دروازہ میں داخل ہوجائے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ رہ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا ۔( خصال 626 / 10 از ابوبصیر و محمد بن مسلم از امام صاد ق (ع) تفسیر فرات کوفی 367 / 499 ، غرر الحکم 10002)۔
119۔ امام علی (ع) ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ جو علم لے کر آدم آئے تھے اور جو فضائل تمام انبیاء و مرسلین کو دیئے گئے ہیں وہ سب خاتم النبیین کی عترت میں موجود ہیں تو تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاہے اور تم کہاں چلے جارہے ہو؟ اے اصحاب سفینہ کی اولاد ، تمھارے درمیان وہ مثال موجود ہے کہ جس طرح اس سفینہ پر سوار ہونے والے نجات پاگئے تھے اسی طرح عترت سے تمسک کرنے والے نجات پا جائیں گے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ویل ہے ان کے لئے جو ان سے الگ ہوجائیں، ان کی مثال اصحاب کہف اور باب حطہ جیسی ہے۔ یہ سب باب السلام ہیں لہذا سِلم میں داخل ہوجاؤ اور خبردار شیطان کے اقدامات کی پیروی نہ کرنا ۔( تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ،از مسعدہ بن صدقہ ، الغیبتہ نعمانی ص 44 ، ینابیع المودة 1 ص 332 / 4 المستر شدہ ص 406)۔
120 ۔ امام محمد باقر (ع) ! ہم تمھارے لئے باب حطہ ہیں۔( تفسیر عیاشی 1 ص 47 از سلیمان جعفری از امام رضا (ع) ، مجمع البیان 1 ص 247)۔
3۔ مثال خانہٴ خدا
121۔ رسول اکرم نے اما م علی (ع) سے فرمایا کہ یا علی (ع) تمھاری مثال بیت اللہ کی مثال ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا وہ عذاب الہی سے محفوظ ہوگیا اور اسی طرح جس نے تم سے محبت کی اور تمہاری ولایت کا اقرار کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ ہوگیا اور جس نے تم سے بغض رکھا وہ جہنم میں ڈال دیا گیا۔ یا علی (ع) لوگوں کا فریضہ ہے کہ خانہٴ خدا کا ارادہ کریں اگر ان میں استطاعت پائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہے تو اس کا عذر اس کے ساتھ ہے یا اگر فقیر ہے تو معذور ہے یا اگر مریض ہے تو معذور ہے لیکن تمھاری محبت اور ولایت میں کوتاہی کرنے والے کو ہرگز معاف نہیں کیا جائیگا چاہے فقیر ہو یا غنی ۔ بیمار ہو یا صحیح، اندھا ہو یا بصارت والا۔ (خصائص الائمہ ص 77 از عیسیٰ بن المنصور)۔
4۔ مثال نجوم فلک
122۔ رسول اکرم ! جس طرح ستارے اہل زمین کے لئے ڈوبنے سے بچنے کا ذریعہ ہیں اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اختلاف سے بچنے کا وسیلہ ہیں لہذا جب بھی عرب کا کوئی قبیلہ ان سے اختلافات کرے گا وہ شیطان کے گروہ میں شامل ہوجائے گا۔( مستدرک 3 ص 162 / 4715)۔
123۔ رسول اکرم نے اما م علی (ع) سے فرمایا ۔ یا علی (ع) ! تمھاری اور تمھاری اولاد کے ائمہ کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس سفینہ پر سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے الگ رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور پھر تمھاری مثال آسمان کے ستاروں کی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی قیامت تک جاری رہے گا۔( امالی صدوق (ر) ص 22 / 18 ، کمال الدین ص 241 / 65 ، بشارة المصطفیٰ ص 32 ، جامع الاخبار 52 / 59 ، مائتہ منقبہ ص 65 ، فرائد السمطین ص 243 ، 517 از ابن عباس ۔
124۔ رسول اکرم ! اہلبیت (ع) کی مثال میری امت میں آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا نکل آتاہے یہ سبب امام ہادی اور مہدی ہیں ، انھیں نہ کسی کا مکر نقصان پہنچاسکتاہے اور نہ کسی کا انحراف بلکہ یہ کام انحراف کرنے والوں ہی کو نقصان پہنچائے گا ۔ یہ سب زمین پر اللہ کی حجت ہیں اور اس کی مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں۔ جوان کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جو ان کی نافرمانی کرے گا اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔ یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔نہ یہ اس سے الگ ہوں گے۔ اور نہ وہ ان سے الگ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوجائیں۔ ان ائمہ میں سب سے پہلا میرا بھائی علی (ع) ہے ، اس کے بعد میرا فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد میرا فرزند حسین (ع) ، اس کے بعد اولاد حسین (ع) کے نو افراد۔( الغیبتہ النعمانی 84 / 12 ، کتاب سلیم بن قیس 2/686 / 14 ، فضائل ابن شاذان ص 114 ، مشارق انوار الیقین ص 192) ۔
125۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ آل محمد کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب کوئی ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتاہے۔(نہج البلاغہ خطبہ 100)۔
126۔ امام صادق (ع) کوئی عالم ہمارے علاوہ ایسا نہیں ہے جو دنیا سے جائے تو اپنا جیسا خلف چھوڑ جائے۔ البتہ ہم میں سے جب کوئی جاتاہے تو اس کی جگہ دوسرا اس کا جیسا موجود رہتاہے کہ ہماری مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے۔( جامع الاحادیث قمی ص 249 از حصین بن مخارق )۔
5 ۔ مثال دو چشم
127۔ رسول اکرم ! دیکھو میرے اہلبیت (ع) کو اپنے درمیان وہی جگہ دو جو جسم میں سرکی اور سرمیں دونوں آنکھوں کی ہوتی ہے کہ جسم سر کے بغیر اور سر آنکھوں کے بغیر ہدایت نہیں پاسکتاہے۔( امالی طوسی (ر) 482 / 1053 ، کشف الغمہ 2 ص 35 از ابوذر ، کفایة الاثر ص 111 از واثلہ بن الاسقع)۔
آگاہی از عدم معرفت اہلبیت (ع)
128۔رسول اکرم ، جو بغیر امام کے مرتاہے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے، (مسند ابن حنبل 6 ص 22 / 16876 ، المعجم الکبیر 19 ، ص 388 /910 ، الملاحم والفتن ص 153 از معاویہ ، مسند ابوداؤد طیالسی ص 259 از ابن عمر ، تفسیر عیاشی 2 ص 303 / 119 ، از عمار الساباطی ، الاختصاص ص 268 از عمر بن یزید از امام موسی ٰ کاظم (ع))۔
129 ۔ رسول اکرم جو اس حال میں مرجائے کہ اس کے سر پر کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔( کافی 1 ص 397 / از سالم بن ابی حفصہ ، 8 ص 146 / 123 از بشیر کناسی، اللمعجم الاوسط 6 / ص70 /5820 ، مسند ابویعلی ٰ 13 ص 366 / 7375 ، از معاویہ ، المعجم الکبیر 10 ص 289 / 1687 از ابن عباس )۔ 130۔ رسول اکرم جو امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔( کافی 2 ص 20 / 6 ، ثواب الاعمال ص 244 / 1 ، المحاسن 1 ص 252 / 475 از عیسیٰ بن السری)۔
131۔ رسول اکرم ۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس کی گردن میں کوئی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔ (صحیح مسلم 3 ص 1478 / 58 ، السنن الکبریٰ 8 ص 270 / 16612 از عبداللہ بن عمر، المعجم الکبیر 19 ص 334 / 769 از معاویہ)۔
132۔ رسول اکرم ! جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس کے پاس میری اولاد میں سے کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتاہے اور اس نے جاہلیت یا اسلام میں جو کچھ کیاہے سب کا حساب لیا جائے گا ۔( عیون اخبار الرضا 2 ص 58 / 214 از ابومحمد الحسن بن عبداللہ الرازی التمیمی ، کنز الفوائد 1 ص 327)۔ 133۔ ابان بن عیاش نے سلیم بن قیس الہلالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے سلمان، ابوذر اور مقداد سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ جو شخص مرجائے اور اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔
اس کے بعد اس حدیث کو جابر اور ابن عباس کے سامنے پیش کیا تو دونوں نے تصدیق کی اور کہا کہ ہم نے بھی سرکار دو عالم سے سناہے اور سلمان نے تو حضور سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ یہ امام کون ہوں گے ؟ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء میں ہوں گے اور جو بھی میری امت میں ان کی معرفت کے بغیر مرجائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ، اب اگر ان سے بے خبر اور ان کا دشمن بھی ہوگا تو مشرکوں میں شمار ہوگا اور اگر صرف جاہل ہوگا نہ ان کا دشمن اور نہ ان کے دشمنوں کا دوست تو جاہل ہوگا لیکن مشرک نہ ہوگا۔ ( کمال الدین 413 / 15)۔
134۔ عیسیٰ بن السری کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا کہ مجھے ارکان دین اسلام سے باخبر کریں تا کہ انھیں اختیار کرلوں تو میرا عمل پاکیزہ ہوجائے اور پھر باقی چیزوں کی جہالت نقصان نہ پہنچا سکے ؟ تو فرمایا کہ ” لا الہ الا اللہ “ محمد رسول اللہ کی شہادت اور ان تمام چیزوں کا اقرار جنھیں پیغمبر لے کر آئے تھے اور اموال سے زکوٰة ادا کرنا اور ولایت آل محمد جس کا خدا نے حکم دیا ہے کہ رسول اکرم نے صاف فرمایاہے جو اپنے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے اور مالک کائنات بھی ارشاد فرمایاہے کہ ” اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو اور اولیاء امر میں پہلے علی (ع) اس کے بعد حسن (ع) ، اس کے بعد حسین (ع)، اس کے بعد علی (ع) بن الحسین (ع)، اس کے بعد محمد (ع) بن علی (ع) اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا اور زمین امام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی ہے اور جو شخص بھی امام کی معرفت کے بغیر مرجائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
(کافی 2 ص21 /9، تفسیر عیاشی 1 ص252 /175 ، از یحییٰ بن السّری)۔
135۔ امام محمد باقر (ع) ! جو شخص بھی اس امت میں امام عادل کے بغیر زندہ رہے گا وہ گمراہ اور بہکاہوا ہوگا اور اگر اسی حال میں مرگیا تو کفر و نفاق کی موت مرے گا۔(کافی1 ص375 /2از محمد بن مسلم)۔
136۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھی اپنے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا لہذا تمھارا فرض ہے کہ تم امام کی اطاعت کرو۔ تم نے اصحاب علی (ع) کو دیکھاہے اور تم ایسے امام کے تابع ہو جس سے بے خبر رہنے میں کوئی شخص معذور نہیں ہے۔ قرآن کے تمام مناقب ہمارے لئے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جن کی اطاعت اللہ نے واجب قرار دی ہے۔ انفاق اور منتخب اموال ہمارا ہی حصہ ہیں۔( محاسن 1 ص 251 / 474 از بشیر الدہّان)۔
137۔ امام صادق (ع) ! جو شخص بھی اس حال میں مرجائے کہ اس کی گردن میں کسی امم کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔(اعلام الدین ص 459) 138۔ امام موسیٰ کاظم (ع) ! جو شخص اپنے اما م کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے اور اس سے جملہ اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (مناقب ابن شہر آشوب 4 ص295 از ابوخالد)
139۔ امام رضا (ع) ! جو شخص بھی ائمہ اہلبیت (ع) کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔ (عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 122 /1 از فضل بن شاذان، الکافی 1 ص 376 ، محاسن1 ص 251 ، بحار الانوار 23 /76)۔
احادیث تنبیہ کی تحقیق
تمام مسلمانوں کا اس نقطہ پر اتفاق ہے کہ جن روایات نے اس مضمون کی نشاندہی کی ہے کہ امام کے بغیر مرنے والا جاہلیت کی موت مرتاہے۔ قطعی طور پر سرکار دو عالم (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور ان میں کسی طرح کے شک اور شببہ کی گنجائش نہیں ہے۔
مفہوم اور مقصود میں اختلاف ہوسکتاہے لیکن اصل مضمون میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ مضمون اس قدر شہرت اورا عتبار پیدا کرچکا تھا کہ حکام ظلم و جور بھی اس کا انکار نہ کرسکے اور بدرجہٴ مجبوری تحریف و ترمیم پر اتر آئے۔ جیسا کہ علامہ امینی طاب ثراہ نے ان احادیث کو صحاح اور مسانید نے محفوظ کیا ہے لہذا اس کے مضمون کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے اور کسی مسلمان کا اسلام اس کے مقصود کو تسلیم کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتاہے۔ اس حقیقت میں نہ دورائے ہے اور نہ کسی ایک نے شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر امام مرنے والے کا انجام بدترین انجام ہے اور اس کے مقدر میں کسی طرح کی کامیابی اور فلاح نہیں ہے۔ جاہلیت کی موت سے بدتر کوئی موت نہیں ہے کہ یہ موت در حقیقت کفر و الحاد کی موت ہے اور اس میں کسی اسلام کا شائبہ بھی نہیں ہے۔(الغدیر 10 ص 360)۔
رہ گیا حدیث کا مفہوم تو اس کی وضاحت کے لئے دور جاہلیت کی تشریح ضروری ہے اور اس کے بغیر مسئلہ کی مکمل توضیح نہیں ہوسکتی ہے قرآن مجید اور احادیث اسلامی میں رسول اکرم کے دور بعثت کو علم و ہدایت کادور اور اس کے پہلے کے زمانہ کو جہالت اور ضلالت کا دور قرار دیا گیاہے، اس لئے کہ اس دور میں آسمانی ادیان میں تحریف و ترمیم کی بناپر راہ ہدایت و ارشاد کا پالینا ممکن نہ تھا۔ اس دور میں انسانی سماجمیں دین کے نام پر جو نظام چل رہے تھے وہ سب اوہام و خرافات کا مجموعہ تھے اور یہ تحریف شدہ ادیان و مذاہب حکام ظلم و جور کے ہاتھوں میں بہترین حربہ کی حیثیت رکھتے تھے جن کے ذریعہ انسانوں کے مقدرات پر قبضہ کیا جاتا تھا اور انھیں اپنی خواہشات کے اشارہ پر چلایا جارہا تھا۔
لیکن اس کے بعد جب سرکار دو عالم کی بعثت کے زیر سایہ علم و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا تو آپ کی ذمہ داریوں میں اہم ترین ذمہ داری ان اوہام و خرافات سے جنگ کرنا اور حقائق کو واضح و بے نقاب کرنا تھا، چنانچہ آپ نے ایک مہربان باپ کی اطرح امت کی تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا اور صاف لفظوں میں اعلان کردیا کہ میں تمھارے باپ جیسا ہوں اور تمھاری تعلیم کا ذمہ دار ہوں (مسند ابن حنبل 3 ص 53 / 7413 ، سنن نسائی 1 ص 38 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 114 ۔ 313 ، الجامع الصغیر 1 ص 394 / 2580)۔
آپ کا پیغام عقل و منطق سے تمامتر ہم آہنگ تھا اور اس کی روشنی میں صاحبان علم کے لئے صداقت تک پہنچنا بہت آسان تھا اور وہ صاف محسوس کرسکتے تھے کہ اس کا رابطہ عالم غیب سے ہے۔
آپ برابر لوگوں کو تنبیہ کیا کرتے تھے کہ خبردار جن چیزوں کو عقل و منطق نے ٹھکرادیاہے۔ ان کا اعتبار نہ کریں کہ بغیر علم و اطلاع کے کسی چیز کے پیچھے نہ دوڑ پڑی۔(سورہ اسراء آیت 36)
اس تمہید سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دور کے امام کی معرفت انسانوں کا انفرادی مسئلہ نہیں تھی کہ اگر کوئی شخص امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے گا تو صرف اس کی موت جاہلیت کی موت ہوجائے گی بلکہ در اصل یہ ایک اجتماعی اور پوری امت کی زندگی کا مسئلہ تھا کہ بعثت پیغمبر اسلام کے سورج کے طلوع کے ساتھ جو علم و معرفت کا دور شروع ہوا ہے اس کا استمرار اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مسلمان اپنے دور کے امام کو پہچان کر اس کی اطاعت نہ کرلیں۔
یا واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امامت ہی اس عصر علم و عرفان کی تنہا ضمانت ہے جو سرکار دو (ع) عالم کی بعثت کے ساتھ شروع ہوا ہے اور اس ضمانت کے مفقود ہوجانے کا فطری نتیجہ اس دور اسلام و عرفان کا خاتمہ ہوگا جس کا لازمی اثر دور جاہلیت کی واپسی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور پورا معاشرہ جاہلیت کی موت مرجائے گا جس کی طرف قرآن مجید نے خود اشارہ کیا تھا کہ مسلمانو۔ دیکھو محمد اللہ کے رسول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور ان سے پہلے بہت سے رسول گذرچکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جاو” گویا مسلمانوں میں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ تھا اور سول اکرم اس کا علاج معرفت امام کے ذریعہ کرنا چاہتے تھے اورابار بار اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ امت دوبارہ جاہلیت کی دلدل میں پھنس سکتی ہے اور جاہلیت کی موت مرسکتی ہے اور اس کا واحد سبب امامت و قیادت امام عصر (ع) سے انحراف کی شکل میں ظاہر ہوگا۔
کس امام کی معرفت ؟
اگر گذشتہ احادیث میں ذرا غور و فکر کرلیا جائے تو اس سوال کا جواب خود بخود واضح ہوجائے گا کہ سرکار دو عالم نے کس امام اور کس طرح کے امام کی معرفت کو ضروری قرار دیاہے کہ جس کے بغیر نہ اصلی اسلام باقی رہ سکتاہے اور نہ جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ ٹل سکتاہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس معرفت سے مراد ہر اس شخص کی معرفت اور اس کا اتباع ہو جو اپنے بارے میں امامت کا دعویٰ کردے اور اسلامی سماج کی زمام پکڑ کر بیٹھ جائے اور باقی افراد اس کی اطاعت نہ کرکے جاہلیت کی موت مرجائیں اور اس کے کردار کا جائزہ نہ لیا جائے اور اس ظلم کو نہ دیکھا جائے جو انسان کو ان اماموں میں قرار دیدیتاہے جو جہنم کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں ؟
ائمہ جور نے ہر دور تاریخ میں یہی کوشش کی ہے کہ حدیث کی ایسی ہی تفسیر کریں اور اسے اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ قرار دیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے راویوں میں ایک معاویہ بھی شامل ہے جسے اس حدیث کی سخت ضرورت تھی اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب روایت بیان کردیگا تو درباری علماء اس کی ترویج و تبلیغ کا کام شروع کردیں گے اور اس طرح حدیث کی روشنی میں معاویہ جیسے افراد کی حکومت کو مستحکم و مضبوط بنادیا جائے گا۔ اگر چہ یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ صرف لفظی بازی گری ہے اور اس کا تفسیر و تشریح حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسے خطائے اجتہادی کہا جاسکتاہے اور نہ سوء فہم بھلا کون یہ تصور کرسکتاہے کہ عبداللہ بن عمر کا بیعت امیر المومنین (ع) سے انکار کردینا کسی بصیرت کی کمزوری یا فکر کی سطحیت کا نتیجہ تھا اور انھیں آپ کی شخصیت کا اندازہ نہیں تھا اور راتوں رات دوڑ کر حجاج بن یوسف کے دربار میں جاکر عبدالملک بن مروان کے لئے بیعت کرلینا واقعاً اس احتیاط کی بناپر تھا کہ کہیں زندگی کی ایک رات بلابیعت امام نہ گذر جائے اور ارشاد پیغمبر کے مطابق جاہلیت کی موت نہ واقع ہوجائے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ نے پہلے حضرت علی (ع) کی بیعت سے انکا کردیا اور اس کے بعد ایک رات حجاج بن یوسف کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے تا کہ اس کے ہاتھ خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان کے لئے بیعت کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک رات بلابیعت امام گذرجائے جبکہ سرکار دو عالم نے فرمایاہے کہ اگر کوئی بیعت امام کے بغیر مرجائے تو جاہلیت کی موت مرتاہے، اور حجاج نے بھی اس جہالت اور پست فطرتی کا اس انداز سے استقبال کیا کہ بستر سے پیر نکال دیا کہ اس پر بیعت کرلو، تم جیسے لوگ اس قابل نہیں ہوکہ ان سے ہاتھ پر بیعت لی جائے۔ (شرح نہج البلاغہ 13 ص 242)۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ جو حضرت علی (ع) کو امام تسلیم نہ کرے گا اس کا امام عبدالملک بن مروان ہی ہوسکتاہے جس کی بیعت سے انکار انسان کو جاہلیت مارسکتاہے اور اس کے ضروری ہے کہ رات کی تاریکی میں انتہائی ذلت نفس کے ساتھ حجاج بن یوسف جیسے جلاد کے دروازہ پر حاضری دے اور عبدالملک جیسے بے ایمان کی خلافت کے لئے بیعت کرلے اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ اس یزید کو بھی حدیث مذکور کا مصداق قرار دیدے جس کے دونوں ہاتھ اسلام اور آل رسول کے خون سے رنگین ہوں۔
مورخین کا بیان ہے کہ اہل مدینہ نے 36ھء میں یزید کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجہ میں واقعہ حرہ پیش آگیا جس کے بعد عبداللہ بن عمر نے اس انقلاب میں قریش کے قائد عبداللہ بن مطیع کے پاس حاضر ہوکر کچھ کہنا چاہا تو عبداللہ نے ان کے لئے تکیہ لگواکر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ابن عمر نے فرمایا کہ میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں۔ میں صرف یہ حدیث پیغمبر سنا نے آیا ہوں کہ اگر کسی کے ہاتھ اطاعت سے الگ ہوگئے تو وہ روز قیامت اس عالم میں محشور ہوکا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور کوئی دلیل نہ ہوگی اور کوئی اپنی گردن میں بیعت امام رکھے بغیر مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔ ( صحیح مسلم 3 / 1478 / 1851)۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اس ضمیر فروش انسان نے کس طرح حدیث شریف کا رخ بالکل ایک متضاد جہت کی طرف موڑدیا اور اسے یزید کی حکومت کی دلیل بنادیا جس موذی مرض کی طرف رسول اکرم نے اس حدیث میں اور دیگر متعدد احادیث میں اشارہ کیا تھا اور آپ کا مقصد تھا کہ لوگ ائمہ حق و ہدایت کی اطاعت کریں لیکن ارباب باطل و تحریف نے اس کا رخ ہی بدل دیا اور اسے باطل کی ترویج کا ذریعہ بنالیا اور اس طرح اسلامی احادیث ہی کو اسلام کی عمارت کے منہدم کرنے کا وسیلہ بنادیا اور دھیرے دھیرے اسلام اور علم کا وہ دور گذر گیا اور امت اسلامیہ ائمہ حق و انصاف کی بے معرفتی اور ان کے انکار کے نتیجہ میں جاہلیت کی طرف پلٹ گئی اور جاہلیت و کفر کی موت کا سلسلہ شروع ہوگیا جب کہ روایات کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ آپ امت کو اس امر سے آگاہ فرمارہے تھے کہ خبردار ائمہ اہلبیت (ع) کی امامت و قیادت سے غافل نہ ہوجانا اور اہلبیت (ع) سے تمسک کو نظر انداز نہ کردینا کہ اس کا لازمی نتیجہ دور علم و ہدایت کا خاتمہ اور دور کفر و جاہلیت کی واپسی کی شکل میں ظاہر ہوگا جس کی طرف حدیث ثقلین، حدیث غدیر اور دوسری سینکڑوں حدیثوں میں اشارہ کیا گیا تھا اور ائمہ اہلبیت (ع) سے تمسک کا حکم دیا گیا تھا۔
روز قیامت منزلت اہلبیت (ع)
140 ۔ رسول اکرم ! سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر میرے اہلبیت (ع) وارد ہوں گے اور امت میں میرے واقعی چاہنے والے۔( السنہ لابن ابی عاصم 324 / 748 ، کنز العمال 12 / 100 / 34178)۔
141۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والا اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہے۔(مستدرک 3 ص 147 / 2662 ، تاریخ بغداد 2 ص81، مناقب ابن المغازلی 16 / 22 ، مناقب خوارزمی 52 / 15)
142۔ امام علی (ع) ! میرے پاس رسول اکرم تشریف لے آئے جب میں بستر پر تھا، آپ سے حسن (ع) یا حسین (ع) نے پانی مانگا اور آپ نے بکری کو دوہ کردینا چاہا کہ دوسرا بھائی سامنے آیا، آپ نے اسے سامنے سے ہٹادیا تو فاطمہ زہرا نے کہا کہ کیا وہ آپ کو زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا نہیں بات یہ ہے کہ اس نے پہلے تقاضا کیاہے اور یاد رکھو کہ میں ۔ تم اور بستر پر آرام کرنے والا سب روز قیامت ایک مقام پر ہوں گے ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 217 / 792 از عبدالرحمان ازرق ، المعجم الکبیر 3 ص 41 / 2622 از ابی فاختہ ، مسند ابوداؤد طیالسی 26 / 190 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 110 / 182 ۔ 118 / 191 ، اسد الغابہ 7/ 220 ، السنة لابن ابی عاصم 584 / 1322 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 111 /115 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 732 / 21)۔
143 ۔ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے ہیں ۔ فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) داخل ہوں گے تو میں نے عرض کی اور ہمارے چاہنے والے ؟ فرمایا تمھارے پیچھے پیچھے ۔(مستدرک 3 ص 164 / 4723 از عاصم بن ضمرہ ، ذخائر العقبيٰ ص 123 ، بشارة المصطفیٰ ص 46 )۔
144 ۔ رسول اکرم ! ہم ۔ علی (ع)۔ فاطمہ (ع)۔ حسن (ع) اور حسین (ع) سب روز قیامت زیر عرض الہی ایک قبہ میں ہوں گے ۔( کنز العمال 12 ص 100 / 34177 ، مجمع الزوائد 9 ص 276 / 15022 ، شرح الاخبار 3 ص 4 / 914 از ابوموسیٰ اشعری، مناقب خوارزمی 303 / 298 ، بشارة المصطفیٰ ص 48۔
145۔ رسول اکرم ! وسیلہ ایک درجہ ہیجس سے بالاتر کوئی درجہ نہیں ہے۔ پروردگار سے طلب کرو کہ وہ مجھے وسیلہ عنایت فرمادے۔( مسند ابن حنبل 4 ص
165 / 11783 از ابوسعید خدری 3 ص 86 / 7601 ص 292 / 8778 از ابوہریرہ 2 ص 571 / 6579 از عبداللہ بن عمرو ابن العاص ، صحیح بخاری 1 /222 / 589 ، صحیح مسلم 1 ص 289 / 384 ، سنن ابی داؤد 1 ص 144 / 523 ص 146 / 529 ، سنن ترمذی 5 ص 586 / 3612 ، سنن نسائی 2 ص 25 / 671 ، ص 27 / 673 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 239 / 722۔
146 ۔ رسول اکرم ، جنت میں ایک درجہ ہے جسے وسیلہ کہاجاتاہے، اگر تمھیں اللہ سے کوئی سوال کرنا ہے تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو ، لوگوں نے عرض کی کہ اس میں آپ کے ساتھ کون کون رہے گا ؟ فرمایا علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) ۔ حسن (ع) حسین (ع) ( کنز العمال 12 ص 103 / 34195 ۔ 13 ص 139 / 37616 ، تفسیر ابن کثیر 2 ص 68 ، بشارہ المصطفیٰ ص 270 ، معانی الاخبار 116 / 1 ، تفسیر قمی 2 ص 324 ، علل الشرائع 164 / 6 ، بصائر الدرجات 416 / 11 ، روضة الواعظین 2 ص127۔
147۔رسول اکرم ! جنت کا مرکزی علاقہ میرے اور میرے اہلبیت (ع) کے لئے ہوگا ۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 68 / 314 از حسن بن عبداللہ التمیمی)۔
148۔ حذیفہ ! میری والدہ نے پوچھا کہ تمھارا رسول اکرم کا ساتھ کب سے ہے؟ میں نے عرض کی فلاں وقت سے اس نے مجھے بُرا بھلا کہا تو میں نے کہا للہ خاموش ہوجائیے۔ میں رسول اکرم کے ساتھ نماز مغرب کے لئے جارہا ہوں ، نماز کے بعد ان سے درخواست کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے دعائے مغفرت کریں ۔ یہ کہہ کر میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مغرب و عشاء کی نماز ادا کی ، اس کے بعد آپ جانے لگے تو میں ساتھ ہولیا۔ راستہ میں ایک شخص مل گیا اس سے آپ نے باتیں کیں۔ پھر روانہ ہوگئے اور میں پھر ساتھ چلا، ایک مرتبہ میری آواز سن کر فرمایا کون ؟ میں نے عرض کی حذیفہ ۔
فرمایا کیوں آئے ؟ میں نے ماجرا بیان کیا ۔ فرمایا خدا تمھیں اور تمھاری ماں کو بخش دے ۔ کیا تم نے راستہ میں ملنے والے کو بھی دیکھاہے؟ عرض کی بیشک ! فرمایا یہ ایک فرشتہ ہے جو آج پہلی مرتبہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور یہ خدا سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنا چاہتا تھا اور یہ بشارت دینا چاہتا تھا کہ حسن (ع) و حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اور فاطمہ (ع) جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور پروردگاران سب سے راضی ہے۔( مسند احمد بن حنبل 9/ 91 / 23389 ، سنن ترمذی 5 ص 326 / 3870 ، خصائص نسائی ص 239 / 130 مجمع الزوائد 9 ص 324 / 15192 ، حلیة الاولیاء 4 / 190 ، اسد الغابہ 7 ص 304 / 7410۔ المصنف لابن ابی شیبہ 7 ص 164 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 51 ص 72 ص 73 ، ذخائر العقبيٰ ص 121 ، امالی مفید (ر) 23 / 4 ، بشارة المصطفیٰ ص 277 ، کمال الدین ص 263 / 10 ، شرح الاخبار 3 ص 65 / 990 ص 75 / 995۔
149 ۔ رسول اکرم ! میں ایک شجر ہوں اور فاطمہ (ع) اس کی شاخ ہے اور علی (ع) اس کا شگوفہ ہے اور حسن (ع) و حسین اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں ، اس شجر کی اصل جنّت عدن میں ہے اور باقی حصہ سار ی جنّت میں پھیلا ہواہے۔( مستدرک علی الصحیحین 3 ص 174 / 4755 از عبدالرحمٰن بن عوف )۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment