Sunday, October 16, 2011

Friday, October 14, 2011

بغض اہلبیت (ع)




بغض اہلبیت (ع)
بغض اہلبیت (ع) پر تنبیہ

1065۔ رسول اکرم ! میرے بعد ائمہ بارہ ہوں گے جن میں سے نوصلب حسین (ع) سے ہوں گے اور ان کا نواں قائم ہوگا، خوشا بحال ان کے دوستوں کے لئے اور ویل ان کے دشمنوں کے لئے۔( کفایة الاثر ص 30 روایت ابوسعید خدری)۔
1066۔ رسول اکرم ! میرے بارہ ائمہ مثل نقباء بنئ اسرائیل کے بارہ ہوں گے، اس کے بعد حسین (ع) کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہنو اس کے صلب سے ہوں گے جن کانواں مہدی ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ، ویل ہے ان سب کے دشمنوں کے لئے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 195)۔
1067۔ رسول اکرم ! اگر کوئی بندہ صفاء و مروہ کے درمیان ہزا ر سال عبادت الہی کرے پھر ہزار سال دوبارہ اور ہزار سال تیسری مرتبہ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت حاصل نہ کرسکے تو پروردگار اسے منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا جیسا کہ ارشاد ہوتاہے ” میں تم سے محبّتِ اقربا کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کرتاہوں“ ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 132 / 182 روایت ابوامامہ باہلی ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 198)۔
1068۔ رسول اکرم ! اگر کوئی شخص ہزار سال عبادت الہی کرے اور پھر ذبح کردیا جائے اور ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی لے کر خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائے تو پروردگار اس کے سارے اعمال کوو اپس کردے گا۔ ( محاسن 1 ص 271/ 527 روایت جابر عن الباقر (ع) )۔
1069۔ رسول اکرم ! پروردگار اشتہاء سے زیادہ کھانے والے ، اطاعت خدا سے غفلت برتنے والے، سنت رسول کو ترک کرنے والے عہد کو توڑ دینے والے، عترت پیغمبر سے نفرت کرنے والے اور ہمسایہ کو اذیت دینے والے سے سخت نفرت کرتاہے۔( کنز العمال 16 / 44029 ، احقاق الحق 9 ص 521)۔
1070۔ رسول اکرم ، ہم سے عداوت وہی کرے گا جس کی ولادت خبیث ہوگی ۔( امالی صدوق (ر) ص 384 / 14 ، علل الشرائع ص 141 / 3 روایت زید بن علی ، الفقیہ 1 ص 96 / 203۔
1071۔ امام علی (ع) ! بدترین اندھا وہ ہے جو ہم اہلبیت (ع) کے فضائل سے آنکھیں بند کرلے اورہم سے بلا سبب دشمنی کا اظہار کرے کہ ہماری کوئی خطا اس کے علاوہ نہیں ہے کہ ہم نے حق کی دعوت دی ہے اور ہمارے غیر نے فتنہ اور دنیا کی دعوت دی ہے اور جب دونوں باتیں اس کے سامنے آئیں تو ہم سے نفرت اور عداوت کرنے لگا۔( خصال ص 633 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم، غرر الحکم 3296)۔
1072۔ امام علی (ع)! ہر بندہ کے لئے خدا کی طرف سے چالیس پردہ داری کے انتظامات ہیں یہاں تک کہ چالیس گناہ کبیرہ کرلے تو سارے پردہ اٹھ جاتے ہیں اور پروردگار ملائکہ کو حکم دیتاہے کہ اپنے پروں کے ذریعہ میرے بندہ کی پردہ پوشی کرو اور بندہ اس کے بعد بھی ہر طرح کا گناہ کرتاہے اور اسی کو قابل تعریف قرار دیتاہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا یہ تیرا بندہ ہر طرح کا گناہ کررہاہے اور ہمیں اس سے اعمال کے حیا آرہی ہے۔
ارشاد ہوتاہے کہ اچھا اپنے پروں کو اٹھالو ، اس کے بعد وہ ہم اہلبیت (ع) کی عداوت میں پکڑا جاتاہے اور زمین و آسمان کے سارے پردے چاک ہوجاتے ہیں اور ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا اس بندہ کا اب کوئی پردہ نہیں رہ گیاہے۔ ارشاد ہوتاہے کہ اللہ کو اس دشمن اہلبیت (ع) کی کوئی بھی پرواہ ہوتی تو تم سے پروں کو ہٹانے کے بارے میں نہ کہتا۔( کافی 2 ص 279 / 9 ، علل اشرائع ص 532 / 1 روایت عبداللہ بن مسکان عن الصادق (ع) ) ۔
1073۔ جمیل بن میسر نے اپنے والد نخعی سے روایت کی ہے کہ مجھ سے امام صادق (ع) نے فرمایا، میسر ! سب سے زیادہ محترم کونسا شہر ہے؟
ہم میں سے کوئی جواب نہ دے سکا تو فرمایا ، مکہ اس کے بعد فرمایا اور مکہ میں سب سے محترم جگہ؟
اور پھر خود ہی فرمایا رکن سے لے کر حجر اسود کے درمیان ، اور دیکھو اگر کوئی شخص اس مقام پر ہزار سال عبادت کرے اور پھر خدا کی بارگاہ میں ہم اہلبیت(ع) کی عداوت لے کر پہنچ جائے تو خدا اس کے جملہ اعمال کو رد کردے گا۔( محاسن 1 ص 27 / 28،)۔
بغض اہلبیت (ع) کے اثرات

1۔ پروردگار کی ناراضگی

1074۔ رسول اکرم ! شب معراج میں آسمان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر لکھا ہے۔ لا الہ الا اللہ ۔ محمد رسول اللہ ، علی حبیب اللہ الحسن والحسین (ع) صفوة اللہ ، فاطمة خیرة اللہ اور ان کے دشمنوں پر لعنة اللہ ۔( تاریخ بغداد 1 ص 259 ، تہذیب دمشق 4 ص 322 ، مناقب خوارزمی ص 302 / 297 ، فرائد السمطین 2 ص 74 / 396 ، امالی طوسی (ر) ص 355 / 737 ، کشف الغمہ 1 ص 94 ، کشف الیقین ص 445 / 551 ، فضائل ابن شاذان ص 71)۔
1075۔ رسول اکرم ! جب مجھے شب معراج آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر سونے کے پانی سے لکھاہے، اللہ کے علاوہ خدا نہیں ۔ محمد اس کے رسول ہیں ، علی (ع) اس کے ولی ہیں، فاطمہ (ع) اس کی کنیز ہیں، حسن (ع) و حسین (ع) اس کے منتخب ہیں اور ان کے دشمنوں پہ خدا کی لعنت ہے۔( مقتل خوارزمی 1 ص 108 ، خصال ص 324 / 10، مائتہ منقبہ 109 / 54 روایت اسماعیل بن موسیٰ (ع) )۔
1076۔ رسول اکرم ! ہر خاندان اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتاہے سوائے نسل فاطمہ (ع) کے کہ میں ان کا ولی اور وارث ہوں اور یہ سب میری عترت ہیں ، میری بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، ان کے فضل کے منکروں کے لئے جہنم ہے، ان کا دوست خدا کا دوست ہے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔( کنز العمال 12 ص 98 / 34168 روایت ابن عساکر، بشارة المصطفیٰ ص 20 روایت جابر)۔
1077۔ رسول اکرم ! آگاہ ہوجاؤ کہ جو آل محمد سے نفرت کرے گا وہ روز قیامت اس طرح محشور ہوگا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا ”رحمت خدا سے مایوس ہے“( مناقب خوارزمی ص 73 ، مقتل خوارزمی 1 ص 40 ، مائتہ منقبہ 150 / 95 ، روایت ابن عمر ، کشاف 3 ص 403 ، فرائد السمطین 2 ص 256 / 524 ، بشارة المصطفیٰ ص 197 ، العمدة 54 / 52 ، روایت جریر بن عبداللہ، احقاق الحق 9 ص 487)۔
1078۔ امام علی (ع)! ہمارے دشمنوں کے لئے خدا کے غضب کے لشکر ہیں۔( تحف العقول ص 116 ، خصال ص 627 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، غرر الحکم ص 7342)۔
2۔ منافقین سے ملحق ہوجانا

1079۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے نفرت کرے گا وہ منافق ہوگا ۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص661 ، 1166 ، درمنثور 7 ص 349 نقل از ابن عدی ،مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 205 ، کشف الغمہ 1 ص 47 روایت ابوسعید)۔
1080۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کا دوست مومن متقی ہوگا اور ہمارا دشمن منافق شقی ہوگا۔( ذخائر العقبئص 18 روایت جابر بن عبداللہ ، کفایة الاثر ص 110 واثلہ بن الاسقع)۔
1081۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ انسان کی روح اس وقت تک جسم سے جدا نہیں ہوتی ہے جب تک جنّت کے درخت یا جہنم کے زقوم کا مزہ نہ چکھ لے اور ملک الموت کے ساتھ مجھے علی (ع) ، فاطمہ ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو نہ دیکھ لے ، اس کے بعد اگر ہمارا محب ہے تو ہم ملک الموت سے کہتے ہیں ذرا نرمی سے کام لو کہ یہ مجھ سے اور ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرتا تھا اور اگر ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن ہے تو ہم کہتے ہیں ملک الموت ذرا سختی کرو کہ یہ ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن تھا اور یاد رکھو ہمارا دوست مومن کے علاوہ اور ہمارا دشمن منافق بدبخت کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتاہے۔ (مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 109 روایت زید بن علی(ع))۔
1082۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نوحسین (ع) کے صلب سے ہوں گے اور نواں ان کا قائم ہوگا، اور ہمارا دشمن منافق کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتاہے۔(کفایة الاثر ص 31 روایت ابوسعید خدری)۔
1083۔ رسول اکرم ! جو ہماری عترت سے بغض رکھے وہ ملعون، منافق اور خسارہ والا ہے۔( جامع الاخبار ص 214 / 527)۔
1084۔ رسول اکرم ! ہوشیار رہو کہ اگر میری امت کا کوئی شخص تمام عمر دنیا تک عبادت کرتارہے اور پھر میرے اہلبیت (ع) اور میرے شیعوں کی عداوت لے کر خدا کے سامنے جائے تو پروردگار اس کے سینے کے نفاق کو بالکل کھول دے گا ۔( کافی 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 157 روایت عبدالعظیم الحسنئ)۔
1085۔ابوسعید خدری ! ہم گروہ انصار منافقین کو صرف علی (ع) بن ابی طالب کی عداوت سے پہچانا کرتے تھے۔( سنن ترمذی 5 ص 635 / 3717 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 220 / 718 ، تاریخ الخلفاء ص 202 ، المعجم الاوسط 4 ص 264 / 4151، مناقب خوارزمی 1 ص 332 / 313 عن الباقر (ع) ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 239 / 1086 ، مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 470 / 965 روایت جابر ابن عبداللہ تذکرة الخواص ص 28 از ابودرداء ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 67 / 305 روایت امام حسین (ع) ، کفایة الاثر ص 102 روایت زید بن ارقم ، العمدہ ص 216 / 334 روایت جابر بن عبداللہ مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 207 ، مجمع البیان 9ص 160 روایت ابوسعید خدری ، قرب الاسناد 26 / 86 روایت عبداللہ بن عمر)۔
3۔ کفار سے الحاق

1086۔ رسول اکرم ! ہوشیار ہو کہ جو بغض آل محمد پر مرجائے گا وہ کافر مرے گا، جو بغض آل محمد پر مرے گا وہ بوئے جنت نہ سونگھ سکے گا۔( کشاف 3 ص 403 ، مائتہ منقبہ 90 / 37 روایت ابن عمر، بشارة المصطفیٰ ص 197 ، فرائد السمطین 2 ص 256 / 254 روایت جریر بن عبداللہ ، جامع الاخبار 474 / 1335 ، احقاق الحق 9 ص 487)۔
1087۔ رسول اکرم ! جس شخص میں تین چیزیں ہوں گی وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں، بغض علی (ع) بن ابی طالب (ع) عداوت اہلبیت (ع) اور ایمان کو صرف کلمہ تصور کرنا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 218 / 712 ، الفردوس 2 ص 85 / 2459 ، مقتل خوارزمی 2 ص 97 ، مناقب کوفی 2 ص 473 / 969 روایت جابر)۔
4۔ یہو و نصاریٰ سے الحاق

1088۔ جابر بن عبداللہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، لوگو! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا اللہ اسے روز قیامت یہودی محشور کرے گا۔
میں نے عرض کی حضور ! چاہے نماز روزہ کیوں نہ کرتا ہو؟ فرمایا چاہے نماز روزہ کا پابند ہوا اور اپنے کو مسلمان تصور کرتا ہو۔(المعجم الاوسط 4 ص 212 / 4002 ، امالی صدوق (ر) 273 / 2 روایت سدیف ملکی، روضة الواعظین ص 297)۔
1089۔ امام باقر (ع) ! جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم منبر پر تشریف لے گئے جبکہ تمام انصار و مہاجرین نماز کے لئے جمع ہوچکے تھے اور فرمایا :
ایہا الناس ! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا ، پروردگار اس کو یہودی محشور کرے گا۔
میں نے عرض کی حضور ! چاہے توحید و رسالت کا کلمہ پڑھتاہو؟ فرمایا بیشک !
یہ کلمہ صرف اس قدر کارآمدہے کہ خون محفوظ ہوجائے اور ذلت کے ساتھ جزیہ نہ دینا پڑے۔
اس کے بعد فرمایا ، ایہا الناس جو ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی رکھے گا پروردگار اسے روز قیامت یہودی محشور کرے گا اور یہ دجال کی آمد تک زندہ رہ گیا تو اس پر ایمان ضرور لے آئے گا اور اگر نہ رہ گیا تو قبر سے اٹھایا جائے گا کہ دجال پر ایمان لے آئے اور اپنی حقیقت کو بے نقاب کردے۔
پروردگار نے میری تمام امت کو روز اول میرے سامنے پیش کردیا ہے اور سب کے نام بھی بتادیے ہیں جس طرح آدم کو اسماء کی تعلیم دی تھی۔ میرے سامنے سے تمام پرچمدار گذرے تو میں نے علی (ع) اور ان کے شیعوں کے حق میں استغفار کیا۔
اس روایت کے راوی سنا ن بن سدیر کا بیان ہے کہ مجھ سے میری والد نے کہا کہ اس حدیث کو لکھ لو، میں نے لکھ لیا اور دوسرے دن مدینہ کا سفر کیا ، وہاں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ میری جان قربان، مکہ کے سدیف نامی ایک شخص نے آپ کے والد کی ایک حدیث بیان کی ہے فرمایا تمھیں یاد ہے؟ میں نے عرض کی میں نے لکھ لیا ہے۔
فرمایا ذرا دکھلاؤ، میں نے پیش کردیا، جب آخری نقرہ کو دیکھا تو فرمایا سدیر ! یہ روایت کب بیان کی گئی ہے؟
میں نے عر ض کی کہ آج ساتواں دن ہے۔
فرمایا میرا خیال تھا کہ یہ حدیث میرے والد بزرگوار سے کسی انسان تک نہ پہنچے گی ، (امالی طوسی (ر) ص 649 / 1347 ، امالی مفید (ر) 126 / 4 روایت حنان بن سدیر از سدیف مکی، محاسن 1 ص 173 / 266 ، ثواب الاعمال 243 /1 ، دعائم الاسلام 1 ص 75)۔
1090۔ امام باقر (ع) ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! کیا ہر لا الہ الا اللہ کہنے والا مومن ہوتاہے؟
فرمایا ہماری عداوت اسے یہود و نصاریٰ سے ملحق کردیتی ہے، تم لوگ اس وقت تک داخل جنت نہیں ہوسکتے ہو جب تک مجھ سے محبت نہ کرو، وہ شخص جھوٹا ہے جس کا خیال یہ ہے کہ مجھ سے محبت کرتاہے اور وہ علی (ع) کا دشمن ہو۔( امالی صدوق (ر) 221 / 17 روایت جابر بن یزید الجعفی ، بشارة المصطفیٰ ص 120)۔
5 روز قیامت دیدار پیغمبر سے محرومی

1091۔ عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) … میں نے عرض کی کہ فرزند رسول ! پھر اس روایت کے معنی کیا ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا ثواب یہ ہے کہ انسان پروردگار کے چہرہ کو دیکھ لے؟
فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خیال ظاہری چہرہ کا ہے تو وہ کافر ہے ۔ یاد رکھو کہ خدا کے چہرہ سے مراد انبیاء مرسلین اور اس کی حجتیں ہیں جن کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کیا جاتاہے اور اس کے دین کی معرفت حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے کہ اس کے چہرہ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہونے والی ہے، انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی طرف نظر کرنے میں ثواب عظیم ہے اور رسول اکرم نے یہ بھی فرمایاہے کہ جو میرے اہلبیت(ع) اور میری عترت سے بغض رکھے گا وہ روز قیامت مجھے نہ دیکھ سکے گا اور میں بھی اس کی طرف نظر نہ کروں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 115 / 3 ، امالی صدوق (ر) 372 / /7 التوحید 117 / 21 ، احتجاج 2 ص 380 / 286)۔
6۔ روز قیامت مجذوم ہونا

1092۔ رسول اکرم ! جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا، خدا اسے روز قیامت کوڑھی محشور کرے گا ۔( ثواب الاعمال 243 / 2 ، محاسن 1ص 174 / 269 روایت اسماعیل الجعفی ، کافی 2 ص 337 / 2)۔
7۔ شفاعت سے محرومی

1093۔ انس بن مالک ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی طرف رخ کرکے اس آیت کی تلاوت کرتے دیکھا ” رات کے ایک حصہ میں بیدار ہوکر یہ خدائی عطیہ ہے وہ اس طرح تمھیں مقام محمود تک پہنچانا چاہتاہے“ ( اسراء ص 79)۔
اورپھر فرمایا ۔ یا علی (ع)! پروردگار نے مجھے اہل توحید کی شفاعت کا اختیار دیاہے لیکن تم سے اور تمھاری اولاد سے دشمنی رکھنے والوں کے بارے میں منع کردیا ہے۔( امالی طوسی (ر) 455 / 1017 ، کشف الغمہ 2 ص 27 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 279)۔
1094۔ امام صادق (ع) ! بیشک مومن اپنے ساتھی کی شفاعت کرسکتاہے لیکن ناصبی کی نہیں اور ناصبی کے بارے میں اگر تمام انبیاء و مرسلین مل کر بھی سفارش کریں تو یہ شفاعت کارآمد نہ ہوگی ، ثواب الاعمال 251 / 21 ، محاسن 1 ص 296 / 595 روایت علی الصائغ)۔
8۔ داخلہ جہنم

1095۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہم اہلبیت(ع) سے جو شخص بھی دشمنی کرے گا اللہ اسے جہنم میں جھونک دے گا، (مستدرک حاکم 3 ص 162 / 4717 ، موارد الظمان 555 / 2246، مناقب کوفی 4 ص 120/607 ، درمنثور ص 349 نقل از احمد ابوحبان)۔
1096۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا پروردگار اسے جہنم میں منھ کے بھل ڈال دے گا ۔( مستدرک 4 ص 392 / 8036 ، مجمع الزوائد 7 ص 580 / 12300 ، شرح الاخبار 1 ص 161 / 110 ، امالی مفید 217 / 3 روایت ابوسعید خدری)۔
1097۔ رسول اکرم ! اے اولاد عبدالمطلب ، میں نے تمھارے لئے پروردگار سے تین چیزوں کا سوال کیا ہے، تمھیں ثبات قدم عنایت کرے، تمھارے گمراہوں کو ہدایت دے اور تمھارے جاہلوں کو علم عطا فرمائے اور یہ بھی دعا کی ہے کہ وہ تمھیں سخی، کریم اور رحم دل قرار دیدے کہ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑا رہے نماز، روزہ، ادا کرتارہے اور ہم اہلبیت (ع) کی عداوت کے ساتھ روز قیامت حاضر ہو تو یقیناً داخل جہنم ہوگا۔( مستدرک 3 ص 161 / 4712 ، المعجم الکبیر 11 ص 142 / 11412 ، امالی طوسی (ر) 21 / 117 /184 / 247 / 435 ، بشارة المصطفیٰ ص 260 روایات ابن عباس)۔
1098۔ معاویہ بن خدیج ! مجھے معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت حسن (ع) بن علی (ع) کے پاس بھیجا کہ ان کی کسی بیٹئ یا بہن کے لئے یزید کا پیغام دوں تو میں نے جاکر مدعا پیش کیا ، انھوں نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) بچیوں کی رائے کے بغیر ان کا عقد نہیں کرتے لہذا میں پہلے اس کی رائے دریافت کرلوں۔
میں نے جاکر پیغام کا ذکر کیا تو بچی نے کہا کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ظالم ہمارے ساتھ فرعون جیسا برتاؤ نہ کرے کہ تمام لڑکوں کو ذبح کرے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رکھے۔ میں نے پلٹ کر حسن (ع) سے کہا کہ آپ نے تو اس قیامت کی بچی کے پاس بھیج دیا جو امیر المومنین (معاویہ) کو فرعون کہتی ہے۔
تو آپ نے فرمایا معاویہ ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی عداوت سے پرہیز کرنا کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ہم اہل بیت (ع) سے بغض و حسد رکھے گا وہ روز قیامت جہنم کے کوڑوں سے ہنکایا جائے گا۔( المعجم الکبیر 3 ص 81 / 2726 ، المعجم الاوسط 3 ص 39 / 2405)۔
1099۔ امام باقر (ع) ! اگر پروردگار کا پیدا کیا ہوا ہر ملک اور اس کا بھیجا ہوا ہر نبی اور ہر صدیق و شہید ہم اہلبیت(ع) کے دشمن کی سفارش کرے کہ خدا اسے جہنم سے نکال دے تو ناممکن ہے، اس نے صاف کہہ دیا ہے، یہ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، سورہٴ کہف آیت 3 ۔( ثواب الاعمال 247 / 5 از حمران بن الحسین )۔
1100۔ امام صادق (ع)! جو شخص یہ چاہتاہے کہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اس سے محبت کرتاہے تو اسے چاہئے کہ اس کی اطاعت کرے اور ہمارا اتباع کرے، کیا اس نے مالک کا یہ ارشاد نہیں سناہے کہ ” پیغمبر کہہ دیجئے اگر تم لوگوں کا دعویٰ ہے کہ خدا کے چاہنے الے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف کردے گا۔(آل عمران آیت 31)۔
خدا کی قسم کوئی بندہ خدا کی اطاعت نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اپنی اطاعت میں ہمارا اتباع شامل کردے۔
اور کوئی شخص ہمارا اتباع نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اسے محبوب بنالے اور جو شخص ہمارا اتباع ترک کردے گا وہ ہمارا دشمن ہوگا اور جو ہمارا دشمن ہوگا وہ اللہ کا گناہگار ہوگا اور جو گنہگار مرجائے گا اسے خدا رسوا کرے گا اور منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا، والحمدللہ رب العالمین ( کافی 8 ص 14 / 1 روایت اسماعیل بن مخلدو اسماعیل بن جابر)۔ 1001۔ اما م کاظم (ع) ! جو ہم سے بغض رکھے، وہ حضرت محمد کا دشمن ہوگا اور جو ان کا دشمن ہوگا وہ خدا کا دشمن ہوگا اور جو خدا کا دشمن ہوگا اس کے بارے میں خدا کا فرض ہے کہ وہ اسے جہنم میں ڈال دے اور اس کا کوئی مددگار نہ ہو ( کامل الزیارات ص 336 روایت عبدالرحمان بن مسلم)۔

خصائص اہلبیت (ع)




خصائص اہلبیت (ع)
اہم ترین خصوصیات

1۔طہارت

﴿ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا﴾

150۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے ہر برائی کو دور رکھاہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی ( الفردوس 1 ص 54 / 144)
151 ۔ رسول اکرم ! پروردگار نے مخلوقات کو دو قسموں پر تقسیم کیا اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ اصحاب الیمین ہیں اور کچھ اصحاب الشمال ، ہمارا تعلق اصحاب الیمین سے ہے اور میں ان میں بہترین قسم میں ہوں۔
اس کے بعد اس نے دونوں قسموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے ان کے بہترین حصہ میں قرار دیا جس کی طرف اصحاب میمنہ کے ساتھ ”السابقون السابقون“ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمارا شمار سابقین میں ہے اور میں ان میں بھی سب سے بہتر ہوں۔ اس کے بعد ان تینوں حصوں کو قبائل میں تقسیم کیا گیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا گیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ پروردگار نے تمھیں شعوب اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکواور تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔
میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی اور پیش پروردگار مکرم ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے، یہ مقام شکر ہے، اس کے بعد مالک نے قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین گھر میں قرار دیا جسکی طرف آیت تطہیر میں اشارہ کیا گیاہے تو مجھے اور میرے اہلبیت (ع) سب کو گناہوں سے پاک و پاکیزہ قرار دیا گیا ہے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 170 ، البدایة والنہایة 2 ص 257 ، الدرالمنثور 6 ص 605 ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 1 ص 127 / 70 ص 406 / 324 ، مجمع البیان 9 ص 207 ، اعلام الوریٰ ص 16 ، المعجم الکبیر 12 ص 81 / 12604 ، 3 ص 57 / 74 26 ، امالی الشجری 1 ص 151 ، امالی صدوق ص 503 / 1 تفسیر قمی 2 ص 347 )۔
152 ۔ رسول اکرم ! میں اور علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) اور نو اولاد حسین (ع) سب پاک و پاکیزہ اور معصوم قرار دیے گئے ہیں ( کمال الدین ص 280 / 28 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 64 / 30 ، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 کفایة الاثر ص 19 ، الصراط المستقیم 2 ص 110 ، ینابیع المودة 3 ص 291 / 9 ، فرائد السمطین 2 ص 133 / 430)۔
153 ۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام مثل نقباء بني اسرائیل ہوں گے اور سب کے سب دین خدا کے امانتدار ۔ پرہیزگار اور معصوم ہوں گے۔( جامع الاخبار 62 / 80)۔
154۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں پروردگار نے پاکیزہ قرار دیاہے ۔ ہم شجرہٴ نبوت اور موضع رسالت ہیں۔ ہمارے گھر ملائکہ کی آمد و رفت رہتی ہے۔ ہمارا گھرانہ رحمت کا ہے اور ہم علم کا معدن ہیں۔ (الدرالمنثور 6 ص 606 از ضحاک بن مزاحم)۔
155 ۔ رسول اکرم ۔ جو شخص بھی اس سرخ لکڑی کو دیکھنا چاہتاہے جسے مالک نے اپنے دست قدرت سے بویاہے اور اس سے متمسک رہنا چاہتاہے اس کا فرض ہے کہ علی (ع) اور ان کی اولاد کے ائمہ سے محبت کرے کہ یہ سب خدا کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہیں اور ہر گناہ اور ہر خطا سے معصوم ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 467 / 26 ، عیون اخبار الرضا ص 57 / 211 از محمد بن علی التمیمی )۔
156 ۔ امام علی (ع) ! پروردگار نے رسول کی اطاعت کا حکم دیاہے اس لئے کہ وہ معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں اس کے بعد اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیاہے کہ وہ بھی معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں( خصال ص 139 / 158 ، علل الشرائع ص 123 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 884 / 54)۔
157 ۔ امام علی (ع) ۔ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کو فضیلت عنایت فرمائی ہے اور کیوں نہ ہوتا جبکہ اس نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے پاکیزہ قرار دیاہے، چاہے کھلی ہوئی ہوں یا مخفی ہوں، ہم ہی میں جو حق کے راستہ پر ہیں ۔ ( تاویل الآیات الظاہرہ ص 450)۔
150 ۔ امام حسن (ع) ۔ ہم ہ اہلبیت (ع) ہیں جنھیں مالک نے اطاعت کے ذریعہ محترم بنایاہے اور ہمیں منتخب اور مصطفیٰ و مجتبي قرار دیاہے۔ ہم سے ہر رجس کو دور رکھاہے اور ہمیں مکمل طور پر پاکیزہ قرار دیاہے۔ اور شک رجس ہے لہذا ہمیں خدایا دین خدا کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوسکتاہے۔ اس نے ہمیں ہر طرح کے انحراف اور گمراہی سے پاکیزہ رکھاہے۔( امالی طوسی (ر) ص 562 / 1174 از عبدالرحمٰان بن کثیر )۔
159 ۔ امام باقر (ع) ! ہماری توصیف ممکن نہیں ہے۔ ان کی توصیف کون کرسکتاہے جن سے اللہ نے ہر رجس اور شک کو دور رکھاہے۔( کافی 2 ص 182 / 16)۔
160۔ امام صادق (ع) ! انبیاء اور اولیاء کی زندگی میں کوئی گناہ نہیں ہوتاہے۔ یہ سب معصوم اور مطہر ہوتے ہیں ۔( خصال ص 608 / 9)۔
161۔ امام صادق (ع) ! شک اور معصیت کی جگہ جہنم ہے اور ان کا تعلق کسی طرح بھی ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص 400 / 5)۔
162 ۔ امام صادق (ع) ! آیت تطہیر میں رجس سے مراد ہر طرح کا شک ہے۔(معانی الاخبار 138 / 1)۔
163 ۔ امام رضا (ع) ! امامت وہ مرتبہ ہے جسے پروردگار نے جناب ابراہیم (ع) کو نبوت کے بعد عنایت فرمایاہے اور تیسرا مرتبہ خلت کا ہے، امامت ہی کے ذریعہ انھیں مشرف کیا ہے اور اس ذریعہ سے ان کے ذکر کو محترم بنایا ہے۔” انی جاعلک للناس اماما“۔
خلیل خدا نے اس مرتبہ کو پانے کے بعد کمال مسرت سے گزارش کی کہ خدایا اور میری ذریت؟ فرمایا یہ عہدہ ظالموں تک نہیں جاسکتاہے لہذاآ یت کریمہ نے قیامت تک کہ ظالموں کی امامت کو باطل قرار دیدیا ہے اور یہ صرف منتخب افراد کا حصّہ ہوگئی ہے۔ اس کے بعد پروردگار نے اسے ان کی اولاد کے پاکیزہ افراد کا حصہ قرار دیاہے اور ارشاد فرمایاہے کہ ” ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا فرمائی ہے اور سب کو صالح قرار دیاہے”--- پھر ارشاد ہوا“ ہم نے انھیں امام بنایا ہے کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیں اور ان کی طرف وحی کی ہے کہ نیکیاں انجام دیں۔ نماز قائم کریں ۔ زکٰوة ادا کریں اور یہ سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے۔( کافی 1 ص 199 / 1 ، کمال الدین ص 676 / 31 امالی صدوق (ر) 537 / 1 ، معانی الاخبار 97 / 2 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 217 از عبدالعزیز بن مسلم)۔
164 ۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں۔ آپ حضرات سب ائمہ راشدین مہدی ، معصوم اور مکرم ہیں ، پروردگار نے آپ حضرات کو لغزش سے محفوظ رکھاہے ۔ فتنوں سے بچاکر رکھاہے، برائیوں سے پاک رکھاہے ارو آپ سے ہر رجس کو دور کرکے پاک و پاکیزہ قرار دیاہے۔(تہذیب 6 ص 97 /177 ، الفقیہ 2 ص 611 / 3213 ، فرائد السمطین 2 ص 180 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 273 ، از موسیٰ بن عمران نجفی ، غالباً یہ موسیٰ بن عبداللہ ہیں)۔
2۔ ہم پلہ قرآن

165۔ زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم نے مکہ و مدینہ کے درمیان خم نامی مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الہی کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پاس داعی الہی آجائے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہتا ہوا چلا جاؤں تو آگاہ رہنا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا جس میں نور اور ہدایت ہے اسے پکڑے رہو اور اس سے وابستہ رہو ۔ یہ کہہ کر اس کے بارے میں ترغیب و تنبیہ فرمائی ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اور ایک میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تمھیں خدا کو یاد دلارہاہوں اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ (صحیح مسلم 4 / 1873 ۔ 2408 ، سنن دارمی 2/ 889 / 3198 ، مسند ابن حنبل 7/ 75 / 19285 ، سنن کبریٰ 10 / 194 / 20335 ، تہذیب تاریخ دمشق 5 ص 439 فرائد السمطین 2 ص 234 / 513 ۔
166۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک دوسرے سے بزرگتر ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) ہیں اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہونگے جب تک میرے پاس حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائیں ۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ (سنن ترمذی 5 ص 663 / 3788 از زید بن ارقم )۔
167۔ زید بن ارقم ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے واپسی پر مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ نے درختوں کے نیچے زمین صاف کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ گویا میں داعی الہی کو لبیک کہنے جارہاہوں لہذا یاد رکھنا کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن میں ایک دوسرے سے بڑی ہے، کتا ب خدا اور میری عترت لہذا یہ خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور یہ کہہ کر فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے اور میں تما م مومنین کا مولی ٰ ہوں اور پھر علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولاہے، خدا اسے دوست رکھنا جو اس سے دوستی رکھے اور اس اپنا دشمن قرا ر دیدینا جو اس سے دشمنی کرے۔ (مستدرک 3 ص 118 / 4576 ، خصائص نسائی 150 / 79 ، کمال الدین 234 / 250 ، الغدیر 1 ص 30 ، 34 ، 302)۔
168۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو حج کے موقع پر روز عرفہ یہ خطبہ ارشاد فرماتے دیکھاہے کہ ایہا الناس ! ---میں تم میں انھیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ کتاب خدا اور میرے عترت و اہلبیت (ع) ۔ (سنن ترمذی 5 ص 662 / 3786 )۔
169 ۔ رسول اکرم ۔ ایہا الناس میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب کو میرے پاس حوض کوثر پر آناہے جہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراپروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے لہذا اس سے متمسک رہنا اور ہرگز نہ گمراہ ہونا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا ۔( تاریخ بغداد 8 ص 442 از حذیفہ بن اسید)۔
170۔ حذیفہ بن اسید الغفار ی ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے فارغ ہوکر چلے تو آپ نے اصحاب کو منع کیا کہ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں اور اس جگہ کو صاف کراکے آپ نے نماز ادا فرمائی اور پھر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ایہا الناس ! مجھے خدا ئے لطیف و خیبر نے خبردی ہے کہ ہر نبی کی زندگی اس سے پہلے والے سے نصف رہی ہے لہذا قریب ہے کہ میں بلالیا جاؤں اور چلاجاؤں اور مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم کیا کہنے والے ہو؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے تبلیغ فرمائی اور اس راہ میں زحمت گوارا فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی ۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
فرمایا کیا اس بات کی گواہی نہ دوگے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں ؟ اور جنت و جہنم برحق ہیں اور موت بھی برحق ہے او ر موت کے بعد کی زندگی بھی برحق ہے اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے نکالنے والاہے؟ سب نے عرض کی بیشک ہم گواہی دیتے ہیں ! فرمایا خدا یا تو بھی گواہ رہنا ۔
اس کے بعد فرمایا کہ لوگو ! خدا میرا مولاہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفوس سے اولیٰ ہوں اور جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولا ہے۔ خدایا جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرنا اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرنا ۔
پھر فرمایا ایہا الناس ! میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔و ہ حوض جس کی وسعت بصرہ اور صنعاء کی مسافت سے زیادہ ہے اور وہاں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوئے ہیں اور میں تمھارے والد ہونے کے بعد تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ۔ ان میں ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراخداکے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے وابستہ رہنا کہ گمراہ نہ ہو اور اس میں تبدیلی نہ کرنا ۔ دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ ان کا سلسلہ ہرگز ختم نہ ہوگا جب تک میرے پاس حوض کوثر پر نہ وارد ہوجائیں ۔( المعجم الکبیر 3 ص 180/ 352)۔
171 ۔ معروف بن خربوذ نے ابوالطفیل عامر بن واثلہ کے حوالہ سے حذیفہ بن اسید الغفاری سے نقل کیا ہے کہ جب رسولاکرم حجة الوداع سے واپس ہوئے تم ہم لوگ آپ ہمراہ تھے۔ جحفہ پہنچ کر آپ نے اصحاب کو قیام کا حکم دیا اور سب اونٹوں سے اتر آئے پھر نماز کی اذان ہوئی اور آپ نے اصحاب کے ساتھ دو رکعت نماز ( ظہر قصر ) ادا فرمائی ۔ اس کے بعد ان کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبردی ہے کہ مجھے بھی مرنا ہے اور تم سب کو مرناہے اور گویا کہ میں اب داعی الہی کو لبیک کہنے والا ہوں اور مجھ سے میری رسالت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا اور کتاب خدااور حجت الہی کو چھوڑے جارہاہوں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم لوگ پروردگار کی بارگاہ میں کیا کہوگے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم آپ کی تبلیغ ، کوشش اور نصیحت کی گواہی دیں گے خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
فرمایا کیا توحید الہی ، میری رسالت ، جنّت و جہنم اور حشر و نشر کے برحق ہونے کی گواہی نہ دوگے؟ عرض کی بیشک گواہی دیں گے ، فرمایا خدا یا تو بھی ان کے بیان پرگواہ رہنا۔
اچھا اب میں تمھیں گواہ بناتاہوں کہ میں اس امر کا گواہ ہوں کہ خدامیرا مولا ہے اور میں ہر مسلمان کا مولا ہوں اور مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہوں کیا تم لوگ بھی اس کا اقرار کرتے ہو اور اس کی گواہی دیتے ہو؟
سب نے عرض کی ۔ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں۔
فرمایا تو آگاہ ہوجاؤ کہ جس کا میں مولا ہوں ۔ اس کا یہ علی (ع) بھی مولاہے۔
یہ کہہ کر علی (ع) کو اس قدر بلند کیا کہ سفیدی بغل نمایان ہوگئی ۔ اور فرمایا خدایا اس سے محبت کرنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے عداوت رکھنا جو اس سے دشمنی کرے۔ اس کی مدد کرنا جو اس کی مدد کریاور اسے چھوڑ دینا جو اس سے الگ ہوجائے۔
آگاہ ہوجاؤ کہ میں تم سے آگے آگے جارہاہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔ یہی کل میرا حوض ہوگا اور اس کی وسعت بصرہ سے صنعاء کے برابر ہوگی جس پرستاروں کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوں گے اور میں تم سے اس کے بارے میں سوال کروں گا جس کا آج گواہ بنارہاہوں اور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ لہذا خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے اور میرے پاس کس طرح حاضر ہوگے۔
لوگوں نے عرض کی کہ حضور یہ ثقلین کیا ہیں ؟ فرمایا ثقل اکبر کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرکار تمھارے ہاتھوں میں ہے اور ایک پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اس میں تمام ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا سارا علم جود ہے۔
اور دوسرا ثقل قرآن کا حلیف یعنی علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔
معروف بن خَرَّبوز کہتے ہیں کہ میں نے اس کلام کو امام ابوجعفر (ع) کے سامنے پیش کیا تو فرمایا کہ ابوالطفیل نے سچ کہاہے ۔ اس حدیث کو میں نے اسی طرح کتاب علی (ع) میں پایاہے اور ہم اسے پہچانتے ہیں۔ (خصال ص 65 / 98)
172۔ رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔( مجمع الزوائد 9 ص 256 / 1458 ، کمال الدین ص 235 / 47 از ابوہریرہ۔ اس روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ نسبتی کے بجائے سنتی ہے)۔
173۔ رسول اکرم ! میں نے تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑ دیا ہے جن میں ایک دوسرے سے بزرگ تر ہے۔ کتاب خدا ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور میری عترت و اہلبیت (ع) ہیں۔آگاہ ہوجاؤ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر وارد ہوجائیں۔( مسند ابن حنبل 4 ص 54 / 1121 از ابوسعید خدری)۔
174 ۔ ابوسعید خدری ۔ رسول اکرم نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ مرض الموت میں فرمایا تھا جب آپ حضرت علی (ع) اور میمونہ پر تکیہ دیکر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ فرمایا کہ ایہا الناس ۔ میں تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں -- اور کہہ کر خاموش ہوئے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ ثقلین کون ہیں ؟ جسے سنکر آپ کو غصہ آگیا اور چہرہ سرخ ہوگیا ۔ فرمایا کہ میں تمھیں ثقلین کے بارے میں باخبر کرنا چاہتا تھا لیکن حالات نے اجازت نہیں دی تو اب سنو ۔ ایک وہ ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرا خدا سے ملتاہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے بارے میں اس اس طرح عمل کرنا ہوگا اور وہ قرآن حکیم ہے اور دوسرا ثقل میرے اہلبیت (ع) ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ بات کہہ رہاہوں اور یہ جانتاہوں کہ کفار کے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جن سے تم سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اور یاد رکھو خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت ایک نورعطا کرے گا جس کی روشنی میں حوض کوثر پر وارد ہوگا اور جوان سے دشمنی کرے گا پروردگار اپنے اور اس کے درمیان حجاب حائل کردے گا ۔( امالی مفید (ر) 135 / 3)۔
175۔ محمد بن عبداللہ الشیبانی نے اپنے صحیح اسناد کے ذریعہ ثقہ سے ثقہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام مرض الموت کے دوران گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے ستون سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایہا الناس کوئی نبی دنیا سے نہیں گیا مگر یہ کہ اس نے اپنا ترکہ چھوڑا ہے اور میں بھی تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میرے اہلبیت (ع) ، یاد رکھو جس نے انھیں ضائع کردیا خدا اسے برباد کردیگا۔( احتجاج 1 ص 171 / 36)
176 ۔ زید بن علی (ع) نے اپنے آباء کرام کے حوالہ سے امیر المؤمنین (ع) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ کا مرض الموت سنگین ہوگیا اور آپ کا گھر اصحاب سے بھر گیا تو آپ نے فرمایا کہ حسن (ع) و حسین (ع) کو بلاؤ۔ میں نے دونوں کو طلب کیا اور آپ نے دونوں کو گلے لگاکر بوسہ دینا شروع کردیا یہاں تک کہ غشی طاری ہوگئی ۔ حضرت علی (ع) نے دونوں کو سینہ سے اٹھالیا تو آپ نے آنکھیں کھول دیں اور فرمایا کہ انھیں رہنے دو تا کہ یہ مجھ سے سکون حاصل کریں اور میں ان سے سکون حاصل کروں۔ اس لئے کہ میرے بعد انھیں قوم کی بدنفسی کا سامنا کرناہے۔
پھر فرمایا ایہا الناس ! میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں کو چھوڑا ہے، کتاب خدا اور میری سنت و عترت و اہلبیت (ع) کتاب خدا کو ضائع کرنے والا میری سنت کو برباد کرنے والا ہے اور سنت کو ضائع کرنے والا عترت کو ضائع کرنے والا ہے۔
یاد رکھو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہانتک کہ میں حوض کوثر پر ملاقات کروں۔(مسند زید ص 404)۔
177۔ سعد الاسکاف ! میں نے امام ابوجعفر (ع) سے اس قول رسول کے بارے میں دریافت کیا کہ میں تم میں ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں ان سے وابستہ رہنا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ؟ تو حضرت نے فرمایا کہ کتاب خدا بھی ہمیشہ رہے گی اور ہم میں سے ایک رہنما بھی رہے گا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا رہے گا یہانتک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔( بصائر الدرجات 6 / 414)۔
178 ۔ امام علی (ع) نے جناب کمیل کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ۔ کمیل ہم ثقل اصغر ہیں اور قرآن خدا ثقل اکبر ہے اور رسول اکرم نے یہ بات قوم کو بار بار سنادی ہے اور نماز جماعت کے بعد اس کا مسلسل اعلان فرمادیاہے۔ ایک دن آ پ نے سارا مجمع کے سامنے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ لوگو! میں خدا کی طرف سے یہ بات پہنچا رہاہوں اور یہ میری ذاتی بات نہیں ہے لذا جو تصدیق کرے گا وہ اللہ کیلئے کرے گا اور اسے صلہ میں جنت ملے گی اور جو تکذیب کرے گا وہ اللہ کی تکذیب کرے گا اور اس کا انجام جہنم ہوگا۔
اس کے بعد حضرت نے مجھے آواز دی اور مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے سینہ سے لگالیا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو داہنے بائیں رکھ کر آواز دی ایہا الناس ۔ ! جبریل امین نے یہ حکم پروردگار پہنچایاہے کہ میں تمھیں یہ بتادوں کہ قرآن ثقل اکبر ثقل اصغر کی گواہی دیتاہے اور ثقل اصغر ثقل اکبر کا شاہد ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور خدا کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تک ساتھ رہیں گے اس کے بعد وہ ان دونوں اور بندوں کے درمیان اپنا فیصلہ سنائے گا۔ (بشارة المصطفیٰ ص 29)۔
179 ۔ عمر بن ابی سلمہ ناقل ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) نے انصار و مہاجرین کی جماعت کے سامنے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے خدا کو گواہ کرکے دریافت کرتاہوں کہ کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ رسول اکرم نے آخری خطبہ میں فرمایا میں فرمایا تھا کہ ایہا الناس ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ کتاب خدا اور میری عترت اہلبیت (ع) ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے بتایاہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔ لوگوں نے کہا بیشک ہمیں معلوم ہے اور حضور نے ہمارے سامنے فرمایاہے۔( کتاب سلیم بن قیس 2 ص 763)
180 ۔ ہشام بن حسّان ۔ میں نے امام حسن (ع) کو بیعت خلافت کے بعد یہ خطبہ دیتے سناہے کہ ہم اللہ کے غالب آنے والے گروہ ہیں اور رسول اکرم کی عترت واقرباہیں۔ہمیں ان کے اہلبیت (ع) طیبین و طاہرین ہیں اور ثقلین کی ایک فرد ہیں جنھیں رسول اکرم نے اپنی امت میں چھوڑ ا ہے اور دوسری شے کتاب خدا ہے جس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور باطل کا اس کی طرف کسی رخ سے گذر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر میں ہم پر اعتماد کیا جانا چاہیئے کہ ہم گمان سے بات نہیں کرتے ہیں بلکہ یقین سے بات کرتے ہیں اور اس کے حقائق کا یقین رکھتے ہیں۔( امالی طوسی (ر) 121 / 188 ۔691 / 1469 ، امالی مفید (ر) 4 ص 349 ، بشارة المصطفیٰ ص 106 ، ینابیع المودة 1 ص 74 ، الاحتجاج 2 ص 94 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 67)۔
181۔ثورین ابی فاختہ نے امام ابوجعفر (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے عمرو بن ذرالقاص سے فرمایا کہ تم ان احادیث کے بارے میں کیوں گفتگو نہیں کرتے جو تمھاری طرف ساقط ہوئی ہیں؟ ابن ذر نے کہا آپ فرمائیں ۔ فرمایا انی تارک فیکم الثقلین … میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن میں ایک دوسرے سے عظیم تر ہے ایک کتاب اللہ ہے اور ایک میری عترت اور اہلبیت (ع) جب تک ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔
دیکھو ابن ذر ! کل جب رسول اکرم سے ملاقات کروگے اور انھوں نے پوچھ لیا کہ ثقلین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے تو کیا جواب دوگے؟ یہ سننا تھا کہ ابن ذر نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور کہا کہ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اکبر کو پارہ پارہ کردیا اور اصغر کو قتل کردیا ۔ ( رجال کشی 2 ص 484 / 394)۔
182۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ مولائے کائنات نے نہروان سے واپسی پر کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ آپ پر لعنت کررہاہے اور گالیان دے رہاہے اور آپ کے اصحاب کو قتل کرررہاہے تو حمد و ثنائے الہی اور صلوات و سلام کے بعد اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن مجید کا یہ حکم نہ ہوتا کہ نعمت پروردگار کو بیان کرتے رہو تو میں ا س وقت یہ خطبہ نہ دیتا لیکن اب حکم خدا کی تعمیل ہیں یہ کہہ رہاہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے ان نعمتوں پر جن کا شمار نہیں اور اس فضل و کرم پر جو بھلایا نہیں جاسکتاہے۔
ایہا الناس ! میں عمر کی ایک منزل تک پہنچ چکاہوں اور قریب ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں لیکن میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے میرے معاملات کو نظر انداز کردیا ہے اور میں تمھارے درمیان انھیں دو چیزوں کو چھوڑے جارہاہوں جنھیں رسول اکرم نے چھوڑا ہے یعنی کتاب اور میری عترت اور یہی عترت ہادی راہ نجات۔ خاتم الانبیاء، سید الانبیاء اور نبی مصطفی کی بھی عترت ہے۔( معانی الاخبار 58 / 9، بشارة المصطفیٰ ص 12 )
183 ۔ امام علی (ع) ۔ پروردگار نے ہمیں پاک اور معصوم بنایاہے اور ہمیں اپنی مخلوقات کا نگراں اور زمین کی حجت قرار دیا ہے۔ ہمیں قرآن کے ساتھ رکھاہے اور قرآن کو ہمارے ساتھ ۔ نہ ہم اس سے جدا ہوسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے جدا ہوسکتاہے۔( کافی 1 ص 191 ، کمال الدین 240 / 63 ، بصائر الدرجات 83 / 6 از سلیم بن قیس الہلالی )
تحقیق حدیث ثقلین

1۔ سند حدیث ثقلین

یہ حدیث ثقلین جس میں رسول اسلام نے اہلبیت (ع) کو قرآن مجید کا شریک اور ہم پلہ قرار دے کر امت اسلامیہ کو ان سے تمسک کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ ان متواتر احادیث میں ہے جس پر تمام رواة اور محدثین نے اتفاق کیاہے اور قطعی طور پر 23 ۔ اصحاب رسول نے اسے نقل کیا ہے جن کے اسماء گرامی بالترتیب یہ ہیں۔
ابوایوب انصاری۔ ابوذر غفاری، ابورافع غلام رسول اکرم ابوسعید الخدری ، ابوشریح الخزاعی، ابوقدامہ الانصاری ، ابولیلی انصاری ، ابو المیثم ابن التبیان ، ابوہریرہ، ام سلمہ ،ام ہانی ، انس بن مالک، البراء بن عازب ، جابر بن عبداللہ الانصاری جبیر بن مطعم، حذیفہ بن اسید الغفاری ، حذیفہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ، زید بن ارقم - زید بن ثابت ، سعد بن ابی وقاص ، سلمان الفارسی ، سہل بن سعد، ضمرہ الاسلمی ، طلحہ بن عبیداللہ التمیمی ، عامر بن لیلیٰ ، عبدالرحمان بن عوف ، عبداللہ بن حنطب ، عبداللہ بن عباس ، عدی بن حاتم ، عقبہ بن عامر ، عمربن الخطاب، عمرو بن العاص ( صحیح مسلم 4 ص1874، سنن ترمذی5 /662 / 2786 / 2788 ، سنن دارمی 2 / 889 / 3198 ، مسند ابن حنبل 4/30 / 11104 / 36 / 11131۔ 54 /11211 ، 7 ص 84 / 19332 ، 8 ص 138 / 21634 ، ص 154 / 21711 ، 118 / 11561 ، مستدرک 3 ص 118 / 4577 ، حصائص نسائی 150 / 79 ، تاریخ بغداد 8 ص 422 الطبقات الکبریٰ 2 ص 196 ، المعجم الکبیر 3 ص 65 ،67 / 2678 ، 2681 ، 2683 ، الدرالمنثور 2 ص 60 ، کنز العمال 1 ص 172 ، ینابیع المودة 1 ص 95 / 126 ، مجمع الزوائد 9 ص 257 ، اسدالغابہ 3 / 136 / 2739 ص 219 / 2907 ، الصواعق المحرقہ ص 226 ، البدایتہ والنہایہ 7 ص 349 ، جامع الاصول 9 ص 158 ، احقاق الحق 9 ص 309 ، 375 ، نفحات الازہار خلاصہ عبقات الانوار 2 ص 88 ، 227 ، الخصال 65 / 97 ، 459 / 2 ، امالی طوسی (ر) 1 ص 255 2 ص 490 ، کمال الدین 234 ، 241 ، معانی الاخبار 90/ 3 ، امالی مفید ص 46 / 6 ، امالی صدوق ص 339 ارشاد 1 /233 ، کفایتہ الاثر ص 92 ، 128 ، 137۔
اس کے علاوہ صاحب عبقات الانوار کے بیان کے مطابق 19 تابعین ہیں جنھوں نے اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے اور تین سو سے زیادہ علماء و مشاہیر و حافظین احادیث ہیں جنھوں نے دوسری صدمی سے چودھویں صدی تک اپنی کتابوں اور اپنے بیانات میں اس کا ذکر کیاہے۔( نفحات الازہار 2 ص 90)۔
واضح رہے کہ صاحب نہایتہ نے ثقلین کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ ان کا اختیار کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا بہت سنگین کام ہے اور اس کے علاوہ ہر گرانقدر چیز کو ثقل کہا جاتاہے اور پیغمبر اکرم نے انھیں ثقلین اسی اعتبار سے قرار دیاہے۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ صاحب عبقات کے بیان کے مطابق سخاوی نے ” استجلاب ارتقاء الغرف“ میں اور سہروردی نے ” جواہر العقدین “ میں بیس اصحاب کے روایت کرنے کا اعتراف کیاہے حالانکہ در حقیقت ان کی تعداد 33 ، ہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں تفیصلی تذکرہ کیا جاچکاہے۔
صحابہ کرام ، تابعین ، علماء و محدثین کے علاوہ ائمہ اہلبیت (ع) نے بھی اس حدیث مبارک کا مسلسل تذرکہ فرمایاہے اور اس کی اجمالی فہرست یہ ہے۔
جناب فاطمہ (ع) سے یہ حدیث ینابیع المودة 1 ص 123 ، نفحات الازہار 2 ص 236 میں نقل کی گئی ہے۔
# امام حسن (ع) سے ینابیع المودة 1 ص 74 ، کفایة الاثر ص 162 ، نفحات الازہار 2 ص67 میں نقل کی گئی ہے۔
# امام حسین (ع) سے کمال الدین ص 240 64 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 / 67 میں نقل کی گئی ہے۔
# امام محمد(ع) باقر سے کافی 3 ص 432 امالی طوسی (ر) ص 163 ، روضة الواعظین ص 300 میں نقل کی گئی ۔
# امام جعفر صادق (ع) سے کافی 1 ص 294 ، کمال الدین 1 ص 244 ، تفسیر عیاشی 1 ص 5/9 میں نقل کی گئی ہے۔
# امام علی (ع) رضا سے عیون الاخبار 2 ص 58 بحار 10 ص 369 میں نقل کی گئی ہے۔
# امام علی (ع) نقی سے تحف العقول ص 458 ، الاحتجاج 2 ص 488 میں نقل کی گئی ہے۔
ب ۔ تاریخ صدور حدیث

حدیث مبارک کے صدور اور اس کی مناسبت کے بارے میں تحقیق کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ حضور نے اس کی بار بار تکرار فرمائی ہے اور اس بات پر زور دیاہے کہ امت اسلامیہ کا سماجی اور سیاسی مستقبل انھیں سے وابستہ ہے اور ان کے بغیر تباہی اور گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ذیل میں ان مقامات کی جمالی نشاندہی کی جارہی ہے ۔
1 ۔ حجة الوداع کے موقع پر روز عرفہ ( سنن ترمذی 5 / 262 / 3786)۔
2 ۔ مسجد خیف میں ۔ اس کے راوی سلیم بن قیس ہیں۔(ینابیع المودة 1 ص 109 / 31)۔
3 ۔ غدیر خم میں ۔ اس کے راوی زید بن ارقم ہیں ۔( مستدرک 3 ص 118 / 4576 / 3 ص 613 / 6272 ، خصائص نسائی ص 150 ، کمال الدین ص 234 / 45 ص 238 / 55)۔
واضح رہے کہ صاحب مستدرک نے دونوں مقامات پر اس امر کی تصریح کی ہے کہ اس حدیث کی سند بخاری اور مسلم دونوں کے اصول پر صحیح ہے مگر ان حضرات نے اسے اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے۔
4۔ مرض الموت کے دوران حجرہ کے اندر جب حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ یہ روایت جناب فاطمہ (ع) سے نقل کی گئی ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 124 ، مسند زید ص 404)
نوٹ ! صواعق محرقہ ص 150 پر ابن حجر کا بیان ہے کہ حدیث تمسک کے مختلف طرق ہیں جن میں اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ کرام سے نقل کیا گیاہے اور بعض میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور نے اسے حجة الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں فرمایاہے۔ بعض میں مدینہ میں حجرہ کے اندر کا ذکر ہے بعض روایات میں حج سے واپسی پر غدیر خم کا حوالہ ہے اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ اس بات کا امکان بہر حال پایا جاتاہے کہ حضور نے یہ بات بار بار ارشاد فرمائی ہو کہ کتاب عزیز اور عترت طاہرہ (ع) دونوں اس قابل ہیں کہ ان کے بارے میں تاکید اور اہتمام سے کام لیا جائے۔
3 ۔ خلفاء اللہ

184 ۔ کمیل بن زیاد راوی ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) میرا ہاتھ پکڑ کر صحرا کی طرف لے گئے اور وہاں جاکر ایک آہ سرد کھینچ کر فرمایا ” بیشک زمین حجت خدا کو قائم رکھنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی ہے چاہے ظاہر بظاہر ہو یا پردہٴ غیب میں ہوتا کہ اللہ کے دلائل و بینات باطل نہ ہونے پائیں۔ مگر یہ کتنے ہیں اور کہاں ہیں ؟ خدا کی قسم عدد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہیں اگر چہ قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت عظیم ہیں۔ انھیں کے ذریعہ پروردگار اپنے حجج و بینات کا تحفظ کرتاہے یہاں تک کہ اپنے امثال کے حوالہ کردیں اور اپنے جیسے افراد کے دلوں میں ثابت کردیں۔ انھیں علم نے حقیقت بصیرت تک پہنچا دیاہے اور روح یقین ان کے اندر پیوست ہوگئی ہے۔ جسے دنیادار سخت سمجھتے ہیں وہ ان کے لئے نرم ہے اور جس سے جاہلوں کو وحشت ہوتی ہے اس سے انھیں انس حاصل ہوتاہے۔ یہ دنیا میں ان اجسام کے ساتھ زندہ رہتے ہیں جن کی روحیں عالم اعلیٰ سے وابستہ رہتی ہیں۔
یہ زمین میں ” خلفاء اللہ “ اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں ۔ ہائے مجھے کس قدر اشتیاق ہے انھیں دیکھنے کا ۔ (نہج البلاغہ حکمت ص 147)۔
خصال ص 186 / 257 کمال الدین ص 291 ، تاریخ یعقوبی 2 ص 206 ، خصائص الائمہ ص 106 ، حلیة الاولیاء 1 ص 79 ، کنز العمال 10 ص 262 / 29291 ، امالی الشجری 1 ص 66 ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 95)۔
185 ۔ امام زین العابدین (ع) دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں ۔ خدایا رحمت نازل فرما ان پاکیزہ کردار اہلبیت (ع) پر جنھیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ بنایاہے اور اپنے دین کا محافظ قرار دیاہے اور وہ زمین میں ” تیرے خلفاء“ اور بندوں پر تیری حجت ہیں ۔ انھیں ہر رجس اور کثافت سے پاک بنایاہے اور اپنی بارگاہ کے لئے وسیلہ اور اپنی جنت کے لئے سیدھا راستہ قرار دیاہے۔( صحیفہ سجادیہ دعاء ص 47 ) ۔
186۔ امام رضا (ع) ۔ ائمہ زمین میں پروردگار کے خلفاء ہوتے ہیں ۔ کافی 1 ص 193 )۔
187 ۔ علی بن حسان ! امام رضا (ع) سے امام موسیٰ (ع) کاظم کی زیارت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا اطراف قبر میں جس مسجد میں چاہونماز ادا کرو اور زیارت کے لئے ہر مقام پر اسی قدر کافی ہے” سلام ہو اولیاء و اصفیاء پروردگار پر ۔ سلام ہو امناء و احباء الہی پر ۔ سلام ہو انصار و خلفاء اللہ پر ۔( الفقیہ 2 ص 608 ، عیو ن اخبار الرضا (ع) ص2 ص 271 ، کامل الزیارات ص 315 ، کافی 4 ص 579) ۔
واضح رہے کہ کافی کی روایت میں زیارت قبر امام حسین (ع) کا ذکر کیا گیاہے۔
188۔ امام علی نقی (ع) نے زیارت جامعہ میں ارشاد فرمایاہے ” میں گواہی دیتاہوں کہ آپ حضرات ائمہ راشدین و مہدیین ہیں۔ خدا نے اپنی روح سے آپ حضرات کی تایید کی ہے اور آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ انتخاب فرمایاہے۔ ( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔
4۔ خلفاء النبی

189۔ رسول اکرم ! میرے خلفاء ۔ اولیاء اور میرے بعد مخلوقات پر حجت پروردگار بارہ افراد ہوں گے۔ اول میرا برادر اور آخر میرا فرزند ! سوال کیا گیا کہ یہ برادر کون ہیں ؟ فرمایا علی (ع) بن ابی طالب ! اور فرزند کون ہے؟ فرمایا وہ مہدی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا ۔( کمال الدین ص 280 / 27 ، فرائد السمطین 2 ص 312 / 562 از عبداللہ بن عباس)۔
190 ۔ امام علی (ع) حضرت مہدی (ع) کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ وہ حکم کی زرہ سے آراستہ ہوگا اور اس کے تمام آداب پر عامل ہوگا کہ اس کی طرف متوجہ بھی ہوگا اور اس کی معرفت بھی رکھتاہوگا اور اس کے لئے اپنے کو فارغ رکھے گا ، گویا اس کا گمشدہ ہے جس کی تلاش جاری ہے اور ایک ضرورت ہے جس کے بارے میں جستجو کررہاہے۔ وہ اس وقت غریب و مسافر ہوجائے گا جب اسلام غربت کا شکار ہوگا اور تھکے ماندہ اونٹ کی طرح سینہ زمین پر ٹیک دیا ہوگا اور دم مار رہاہوگا ۔ وہ اللہ کی باقیماندہ حجتوں کا بقیہ ہے اور اس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 182)۔
191 ۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ائمہ طاہرین اور عترت معصومین ہیں ۔ یہی ذریت محترم ہیں اور یہی خلفاء راشدین ہیں ۔( مشارق انوار الیقین ص118 از طارق بن شہاب ) ۔
192۔ امام صادق (ع) ، ائمہ رسول اکرم کی منزل میں ہوتے ہیں لیکن رسول نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کے لئے وہ چیزیں حلال ہیں جو صرف پیغمبر کے لئے حلال ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہر مسئلہ میں رسول اکرم کی منزلت میں ہیں ۔( کافی 1 ص 270 از محمد بن مسلم )۔
5۔ اوصیاء نبی

193۔ رسول اکرم ! میں سید الانبیاء والمرسلین اور افضل از ملائکہ مقربین ہوں اور میرے اولیاء تمام انبیاء و مرسلین کے اوصیاء کے سردار ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 245 ، بشارة المصطفی ٰ ص 34)۔
194 ۔ رسول اکرم ! میں انبیاء کا سردار ہوں اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے اوصیاء میرے بعد کل بارہ ہوں گے جن کے اول علی (ع) بن ابی طالب ہوں گے اور آخری قائم ۔( کمال الدین ص 280 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 64 ، فرائد السمطین 2 ص 313۔
195 ۔ رسول اکرم ! ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتاہے اور علی (ع) میرا وصی اور وارث ہے(الفردوس 3 ص 336)۔
تاریخ دمشق حالات امیر المؤمنین (ع) 3 ص 5 / 1021 ، 1022 ، مناقب خوارزمی 84/ 74 ، مناقب ابن المغازلی ص 200 / 238)۔
196۔ سلمان ! میں نے رسول اکرم سے عرض کی کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتاہے تو آپ کا وصی کون ہے ؟ آپ خاموش ہوگئے، اس کے بعد جب مجھے دیکھا تو آوازی دی ، میں دوڑ کر حاضر ہوا ۔ فرمایا تمھیں معلوم ہے کہ موسی ٰ (ع) کا وصی کون ہے ؟ میں نے عرض کی یوشع بن نون ! فرمایا کیسے ؟ عرض کی کہ وہ سب سے بہتر تھے۔ فرمایا تو میرا وصی اور میرے اس امر کا مرکز اور میری تمام امت میں سب سے بہتر، میرے تمام وعدوں کو پورا کرنے والا اور میرے قرض کا ادا کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب ہوگا۔ (المعجم الکبیر 6 ص 221 / 63 60 ، کشف الغمہ 1 ص 157)۔
197۔ رسول اکرم حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی خدایا میرے اوصیاء کون ہیں ؟ ارشاد ہوا ۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء کون ہیں؟ ارشاد ہوا۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نور چمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع)۔
میں نے عرض کی خدایا یہی میرے اوصیاء ہیں؟ ارشاد ہوا ، اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نورچمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع) میں نے عرض کی خدایا یہی میرے بعد میرے اوصیاء ہیں ؟ ارشاد ہوا اے محمد ! یہی میرے اولیاء ، احباء ، اصفیاء اور تمھارے بعد مخلوقات پر میری حجت ہیں اور یہی تمھارے اوصیاء خلفاء اور تمھارے بعد بہترین مخلوقات ہیں۔(علل الشرائع 6 ص 1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 264 ، کمال الدین ص 256 از عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) )۔
198 ۔ رسول اکرم کا وقت آخر تھا اور جناب فاطمہ (ع) فریاد کررہی تھیں کہ آپ کے بعد میرے اور میری اولاد کے برباد ہوجانے کا خطرہ ہے، امت کے حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے لئے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے اور تمام مخلوقات کے لئے فناکو مقدر کردیا ہے، اس نے ایک مرتبہ مخلوقات پر نگاہ انتخاب ڈالی تو تمھارے باپ کو منتخب کرکے نبی قرار دیا اور دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں تمھارا عقد ان کے ساتھ کردوں اور انھیں اپنا ولی اور وزیر قرار دیدوں اور امت میں اپنا خلیفہ نامزد کردوں تو اب تمھارا باپ تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہے اور تمھارا شوہر تمام اولیاء سے بہتر ہے اور تم سب سے پہلے مجھ سے ملنے والی ہو۔
اس کے بعد مالک نے تیسری نگاہ ڈالی تو تمھیں اور تمھارے دونوں فرزندوں کا انتخاب کیا، اب تم سردار نساء اہل جنت ہو اور تمھارے دونوں فرزند سرداران جوانان اہل جنّت ہیں اور تمھاری اولاد میں قیامت تک میرے اوصیاء ہوں گے جو ہادی اور مہدی ہوں گے، میرے اوصیاء میں سب سے پہلے میرے بھائی علی (ع) ہیں، اس کے بعد حسن (ع) اس کے بعد حسین (ع) اور اس کے بعد نو اولاد حسین (ع) یہ سب کے سب میرے درجہ میں ہوں گے اورجنّت میں خدا کی بارگاہ میں میرے درجہ سے اور میرے باپ ابراہیم کے درجہ سے قریب تر کوئی درجہ نہ ہوگا ۔( کمال الدین ص 263 از سلیم بن قیس الہلالی)۔
199۔ امام حسین (ع) ! پروردگار عالم نے حضرت محمد کو تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے، انھیں نبوت سے سرفراز کیا ہے، رسالت کے لئے انتخاب کیا ہے، اس کے بعد جب انھیں واپس بلالیا، اس وقت جب وہ بندوں کو نصیحت کرچکے اور پیغام الہی کو پہنچا چکے تو ہم ان کے اہلبیت (ع) اولیاء ، اوصیاء، ورثہ اور تمام لوگوں سے زیادہ ان کی جگہ کے حقدار تھے لیکن قوم نے ہم پر زیادتی کی تو ہم خاموش ہوگئے اور ہم نے کوئی تفرقہ پسند نہیں کیا بلکہ عافیت کو ترجیح دی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان تمام لوگوں سے زیادہ حقدار میں جنھوں نے اس جگہ پر قبضہ کرلیا تھا، ۔( تاریخ طبری 5 ص 357 از ابوعثمان نہدی، البداینة والنہایتہ 8 ص 157)۔
200 ۔ امام محمد باقر (ع) ! پروردگار کی بارگاہ میں سب سے زیادہ قریب تر ، لوگوں سے سب سے اعلم اور مہربان حضرت محمد اور ائمہ کرام ہیں لہذا جہاں یہ داخل ہوں سب داخل ہوجاؤ اور جس سے یہ الگ ہوجائیں سب الگ ہوجاؤ، حق انھیں میں ہے اور یہی اوصیاء میں اور یہی ائمہ ہیں ، جہاں انھیں دیکھو ان کا اتباع شروع کردو( کمال الدین ص 328 از ابوحمزہ الثمالی)۔
201۔ محمد بن مسلم! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ کی کچھ مخصوص مخلوق ہے جسے اس نے اپنے نور اور اپنی رحمت سے پیدا کیا ہے، رحمت سے رحمت کے لئے، یہی خدا کی نگرانی کرنے والی آنکھیں اس کے سننے والے کان، اس کی اجازت سے بولنے والی زبان اور اس کے تمام احکام و بیانات کے امانتدار ہیں، انھیں کے ذریعہ وہ برائیوں کو محو کرتاہے، ذلت کو دفع کرتاہے، رحمت کو نازل کرتاہے، مردوہ کو زندہ کرتاہے، زندہ کو مردہ بناتاہے، لوگوں کی آزمائش کرتاہے، مخلوقات میں اپنے فیصلے نافذ کرتاہے۔ تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، یہ کون حضرات ہیں، فرمایا یہ اوصیاء ہیں ۔( التوحید ص 167 ، معانی الاخبار ص 16)۔
202۔ امام ہادی (ع) نے زیارت جامعہ میں فرمایا کہ سلام ہو ان پر جو معرفت الہی کے مرکز۔ برکت الہی کے مسکن، حکمت الہی کے معدن، راز الہی کے محافظ، کتاب الہی کے حافظ ، رسول اللہ کے اوصیاء اور ان کی ذریت ہیں، انھیں پر رحمت اور انھیں پر برکات۔(تہذیب 6 ص96 / 177)۔
مولف! واضح رہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کے اوصیاء رسول ہونے کی روایات بہت زیادہ ہیں جن کے بارے میں ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی کا ارشاد ہے کہ قوی اسناد کے ساتھ صحیح اخبار میں اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ رسول اکرم نے اپنے معاملات کی وصیت حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) کو فرمائی اور انھوں نے امام حسن (ع) کو … اور انھوں نے امام حسین (ع) کو … اور انھوں نے علی بن الحسین (ع) کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن موسیٰ کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن محمد (ع) کو … اور انھوں نے حسن (ع) بن علی (ع) کو … اور انھوں نے اپنے فرزند حجت قائم کو فرمائی کہ اگر عمر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو اس قدر طول دے گا کہ وہ منظر عام پر آکر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں، پروردگار کی صلوات و رحمت ان پر اور ان کے جملہ آباء طاہرین پر ۔ (الفقیہ 4 ص 177)۔
6۔ پیغمبر اسلام کے محبوب ترین

203۔ جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرما تھے کہ اچانک فاطمہ (ع) ایک مخصوص غذا لے کر حاضر ہوگئیں، آپ نے فرمایا کہ علی (ع) اور ان کے فرزند کہاں ہیں ؟ جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں۔
فرمایا انھیں طلب کرو ! اتنے میں علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) آگئے اور آپ نے سب کو دیکھ کر اپنی خیبری چادر کو اٹھایا اور سب کو اوڑھا کر فرمایا خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) اور ” تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب “ ہیں ، لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی ۔( کشف الغمہ 1ص 45)۔
204۔ امام علی (ع) ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضرہوا اور دریافت کیا کہ حضور سب سے زیادہ محبوب آپ کی نظر میں کون ہے؟ فرمایا کہ یہ (علی(ع)) اور اس کے دونوں فرزند اور ان کی ماں(فاطمہ(ع)) یہ سب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور یہ جنت میں میرے ساتھ اسی طرح ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں۔(امالی طوسی ص 452 / 100 از زید بن علی (ع))۔
205۔ جمیع بن عمیر التیمی! اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میری پھوپھی نے سوال کیا کہ رسول اکرم کے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کون تھی؟ تو انھوں نے فرمایا فاطمہ (ع) ! پھوپھی نے پوچھا اور مردوں میں ؟ فرمایا، ان کے شوہر، وہ ہمیشہ دن میں روزے رکھتے تھے اور رات بھر نمازیں پڑھا کرتے تھے( سنن ترمذی 5 ص 701 / 3874)۔
206۔ جمیع بن عمیر ! میں ایک مرتبہ اپنی ماں کے ساتھ حضرت عائشہ کے پاس حاضرہو اور میری ماں نے یہی سوال تو انھوں نے فرمایا کہ تم محبوب ترین خلائق کے بارے میں دریافت کررہی ہو تو ان کے محبوب ترین بیٹئ کا شوہر ہے، میں نے خود حضور کو دیکھا ہے کہ انھوں نے علی (ع) ، فاطمہ اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ان پر چادر اوڑھاکر یہ دعا کی تھی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) میں ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک پاکیزہ رکھنا، جس کے بعد میں بھی قریب گئی اور دریافت کیا ، کیا میں بھی اہلبیت (ع) میں شامل ہوں؟ تو فرمایا دو ر رہو تم خیر پر ہو۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 132 / 617)۔
7 ۔ افضل خلائق

207 ۔ رسول اکرم ! تمھارے بزرگوں میں سب سے بہتر علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں، تمھارے جوانوں میں سب سے افضل حسن (ع) و حسین (ع) ہیں اور تمھاری عورتوں میں سب سے بالاتر فاطمہ (ع) بنت محمد ہیں۔(تاریخ بغداد 4 / 392 / 2280)۔
208۔ رسول اکرم ! میں اور میرے اہلبیت(ع) سب اللہ کے مصطفی اور تمام مخلوقات میں منتخب بندہ ہیں۔( احقاق الحق 9/483)۔
209۔ رسول اکرم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا۔ فاطمہ (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کو پروردگار نے وہ سات خصال عطا فرمائے ہیں جو نہ ہم سے پہلے کسی کو عطا کئے ہیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کرے گا، مجھے خاتم النبین اور تمام مرسلین میں سب سے بزرگ تر اور تمام مخلوقات میں سب سے محبوب تر قرار دیا ہے میں تمھارا باپ ہوں اور میرا وصی جو تمام اوصیاء سے بہتر اور نگا ہ پروردگار میں محبوب تر ہے وہ تمھارا شوہر ہے، ہمارا شہید بہترینِ شہداء ہے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین ہے جو تمھارے باپ اور شوہر کے چچا ہیں، ہمیں میں سے وہ شخصیت ہے جسے پروردگار نے فضائل جنّت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے کے لئے دو سبز پر عنایت فرمادیے ہیں اور وہ تمھارے باپ کے ابن عم او ر تمھارے شوہر کے حقیقی بھائی ہیں اور ہمیں میں سے اس امت کے سبطین ہیں یعنی تمھارے دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں اور پروردگار کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے ، فاطمہ (ع) ! خدائے برحق کی قسم انھیں دونوں کی اولاد میں اس امت کا مہدی بھی ہوگا ( المعجم الکبیر 3 ص 57 / 2675 از علی المکی الہلالی ، امالی طوسی (ر) ص 154 ، 256 ، الخصال ص 412 ، /16 ، الغیبة طوسی (ر) ص 191 ، 154 ، کشف الغمہ 1 ص 154 ، کفایة الاثر ص 63)۔
210 ۔ رسول اکرم ، میں سید النبیین ہوں علی (ع) بن ابی طالب (ع) سید الوصیین ہیں حسن (ع) و حسین (ع) سردار جوانان جنت ہیں، ان کے بعد کے ائمہ سردار متقین ہیں ، ہمارا دوست خدا کا دوست ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے، ہماری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے، ہماری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ہماری نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے( امالی صدوق (ر) ص 448 ) ۔
211۔ رسول اکرم ، علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد کے ائمہ سب اہل زمین کے سردار اور روز قیامت روشن پیشانی لشکر کے قائد ہیں۔(امالی صدوق (ر) 466 / 24 از عمرو بن ابی سلمہ )
212۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ سب دنیا کے سردار اور آخرت کے شہنشاہ ہیں جس نے ہمیں پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جس نے ہمارا انکار کردیا اس نے خدا کا انکار کردیا ۔( امالی صدوق (ع) ص 523 /6 از سلیمان بن مہران ص 448 از حسن بن علی (ع) بن فضال، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 57 / 210 ملوک فی الارض)۔
213۔ ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اکرم نے عبدالرحمٰن بن عوف سے فرمایا کہ تم سب میرے اصحاب ہو اور علی (ع) بن ابی طالب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، وہ میرے علم کا دروازہ اور میرے وصی ہیں، وہ فاطمہ (ع) ، حسن(ع) اور حسین (ع) سب اصل و شرف اور کرم کی اعتبار سے تمام اہل زمین سے افضل و برتر ہیں( ینابیع المودة 2 ص 333 / 973 ، مائتہ منقبہ ص 122 ، مقتل خوارزمی 1 ص 60)۔
214۔ امیر المؤمنین (ع) رسول اکرم کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کی عترت بہترین عترت ، آپ کا خاندان بہترین خاندان اور آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 94)۔
8۔ مباہلہ میں شرکت

315۔ عبدالرحمان بن کثیر نے جعفر بن محمد، ان کے والد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ مباہلہ کے موقع پر آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم نے نفس کی جگہ میرے والد کو لیا، ابنائنا میں مجھے اور بھائی کولیا، نساء نامیں میری والدہ فاطمہ (ع) کو لیا اور اس کے علاوہ کائنات میں کسی کو ان الفاظ کا مصداق نہیں قرار دیا لہذا ہمیں ان کیا اہلبیت (ع) گوشت و پوست اور خون و نفس ہیں، ہم ان سے ہیں اور وہ ہم سے ہیں۔(امالی (ع) طوسی (ر) 564 / 1174 ، ینابیع المودة 1 ص 165 / 1)۔
216۔ جابر ! رسول اکرم کے پاس عاقب اور طیب ( علماء نصاریٰ) وارد ہوئے تو انھیں اسلام کی دعوت دی ، ان دونوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اسلام لاچکے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ بالکل جھوٹ ہے اور تم چار ہو تو میں بتا سکتاہوں کہ تمھارے لئے اسلام سے مانع کیا ہے؟ ان لوگوں نے کہا فرمائیے؟
فرمایا کہ صلیب کی محبّت ، شراب اور سور کا گوشت اور یہ کہہ کر آپ نے انھیں مباہلہ کی دعوت دیدی اور ان لوگوں نے صبح کو آنے کا وعدہ کرلیا، اب جو صبح ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) کو ساتھ لیا اور پھر ان دونوں کو مباہلہ کی دعوت دی لیکن انھوں نے انکار کردیا اور سپر انداختہ ہوگئے۔
آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم جس نے مجھے نبی بنایاہے کہ اگر ان لوگوں نے مباہلہ کرلیا ہوتا تو یہ وادی آگ سے بھر جاتی ، اس کے بعد جابر کا بیان ہے کہ انھیں حضرات کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے فقل تعالو ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم…
شعب نے جابر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انفسنا میں رسول اکرم تھے اور حضرت علی (ع) ، ابنائنا میں حسن(ع) و حسین (ع) تھے اور نسائنا میں فاطمہ (ع) (دلائل النبوة ابونعیم 2 ص 393 / 244 ، مناقب ابن المغازلی ص 263 / 310 العمدة 190 / 191 ، الطرائف 46 / 38)۔
217۔ زمخشری کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم نے انھیں مباہلہ کی دعوت دی تو انھوں نے اپنے دانشور عاقب سے مشورہ کیا کہ آپ کا خیال کیاہے؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور انھوں نے حضرت مسیح (ع) کے بارے میں قول فیصل سنادیا ہے اور خدا گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے کسی نبی بر حق سے مباہلہ کیا ہے تو نہ بوڑھے باقی رہ سکے ہیں اور نہ بچے نپپ سکے ہیں اور تمھارے لئے بھی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے ، لہذا مناسب ہے کہ مصالحت کرلو اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔
دوسرے دن جب وہ لوگ رسول اکرم کے پاس آئے تو آپ اس شان سے نکل چکے تھے کہ حسین (ع) کو گود میں لئے تھے، حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فاطمہ (ع) آپ کے پیچھے چل رہی تھیں اور علی (ع) ان کے پیچھے۔ اور آپ فرمارہے تھے کہ دیکھو جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔
اسقف نجران نے یہ منظر دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں کہ اگر خدا پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہے تو ان کے کہنے سے ہٹا سکتا ہے، خبردار مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور روئے زمین پر کوئی ایک عیسائی باقی نہ رہ جائے گا۔
چنانچہ ان لوگوں نے کہا یا ابا القاسم ! ہماری رائے یہ ہے کہ ہم مباہلہ نہ کریں اور آپ اپنے دین پر رہیں اور ہم اپنے دین پر رہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر مباہلہ نہیں چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو تا کہ مسلمانوں کے تمام حقوق و فرائض میں شریک ہوجاؤ!
ان لوگوں نے کہا یہ تو نہیں ہوسکتاہے!
فرمایا پھر جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ، کہا اس کی بھی طاقت نہیں ہے، البتہ اس بات پر صلح کرسکتے ہیں کہ آپ نہ جنگ کریں نہ ہمیں خوفزدہ کریں، نہ دین سے الگ کریں، ہم ہر سال آپ کو دو ہزار حلّے دیتے رہیں گے، ایک ہزار صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں اور تیس عدد آہنی زر ہیں !
چنانچہ آپ نے اس شرط سے صلح کرلی اور فرمایا کہ ہلاکت اس قوم پر منڈ لارہی تھی، اگر انھوں نے لعنت میں حصہ لے لیا ہوتا تو سب کے سب بندر اور سور کی شکل میں مسخ ہوجاتے اور پوری وادی آگ سے بھر جاتی اور اللہ اہل نجرات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا اور درختوں پر پرندہ تک نہ رہ جاتے اور ایک سال کے اندر سارے عیسائی تباہ ہوجاتے ۔
اس کے بعد زمخشری نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ آیت شریف میں ابناء و نساء کو نفس پر مقدم کیا گیا ہے تا کہ ان کی عظیم منزلت اور ان کے بلندترین مرتبہ کی وضاحت کردی جائے اور یہ بتادیاجائے کہ یہ سب نفس پر بھی مقدم ہیں اور ان پر نفس بھی قربان کیا جاسکتاہے اور اس سے بالاتر اصحاب کساء کی کوئی دوسری فضیلت نہیں ہوسکتی ہے۔( تفسیر کشاف 1 ص 193 ، تفسیر طبری 3 ص 299 ، تفسیر فخر الدین رازی ص8 ص 88 ، ارشاد 1 ص 166 ، مجمع البیان 2 ص 762 ، تفسیر قمی 1 ص 104۔
واضح رہے کہ فخر رازی نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی صحت پر تقریباً تمام اہل تفسیر و حدیث کا اتفاق و اجماع ہے۔
9۔ اولو الامر

یا ایہا الذین امنوا اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم۔( نساء آیت 59)
218۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے فرمایا کہ اولو الامر وہ افراد ہیں جنھیں خدا نے اطاعت میں اپنا اور میرا شریک قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جب کسی امر میں اختلاف کا خوف ہو تو انھیں سب کی طرف رجوع کیا جائے۔ تو میں نے عرض کی کہ حضور وہ کون افراد ہیں ؟ فرمایا کہ ان میں سے پہلے تم ہو ( شواہد التنزیل 1 ص 189 / 202 ، الاعتقادات 5 ص 121 ، کتاب سلیم 6 ص 626)۔
219۔ امیر المؤمنین (ع) نے کوفہ میں وارد ہونے کے بعد فرمایا اہل کوفہ ! تمھارا فرض ہے کہ تقوائے الہی اختیار کرو اور تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) جو اللہ کے اطاعت گذار ہیں ان کی اطاعت کرو کہ یہ اطاعت کے زیادہ حقدار ہیں، ان لوگوں کی بہ نسبت جوان کے ماقبلہ میں اطاعت کے دعویدار ہیں اور انھیں کی وجہ سے صاحبان فضیلت بن گئے ہیں اور پھر ہمارے فضل کا انکار کردیاہے اور ہمارے حق میں ہم سے جھگڑا کر کے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں ، انھیں اپنے کئے کامزہ معلوم ہوچکاہے اورعنقریب گمراہی کا انجام دیکھ لیں گے۔( امالی مفید 127 / 5 ، ارشاد 1 / 260)۔
220۔ ہشام بن حسان، امام حسن (ع) نے لوگوں سے بیعت لینے کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا کہ ہماری اطاعت کرو یہ اطاعت تمھارا فریضہ ہے، یہ اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے ملی ہوئی ہے” اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم“ … ( امالی مفید ص 349 ، امالی طوسی (ر) 122 / 188 ، احتجاج 2 ص 94 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 67)۔
221۔ امام حسین (ع) نے میدان کربلا میں فوج دشمن سے خطاب کرکے فرمایا ” ایھا الناس“ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور حق کو اس کے اہل کے لئے پہچان لو تو اس میں رضائے خدا زیادہ ہے، دیکھو ہم پیغمبر کے اہلبیت (ع) ہیں اور ان مدعیوں سے زیادہ امر رسالت کے حقدار ہیں جو ظلم و جور کا برتاؤ کررہے ہیں اور اگر اب تم ہمیں ناپسند کررہے ہو اور ہمارے حق کا انکار کررہے ہو تو یہ تمھاری نئی رائے ہے،اس کے خلاف جو تمھارے خطوط میں درج ہے اور جس کا اشارہ تمھارے رسائل نے دیا ہے اور اس بنیاد پر ہیں واپس بھی جاسکتاہوں۔( ارشاد 2 ص 79 ، وقعة الطف ص 170 ، کامل 2 ص 552)۔
222۔ امام زین العابدین (ع) اپنی دعا میں فرماتے ہیں، خدایا اپنی محبوب ترین مخلوق محمد اور ان کی منتخب عترت پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ کردار ہیں اور ہمیں انکی باتوں کا سننے والا اور ان کی اطاعت کرنے والا قرار دیدے جس طرح تو نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔( صحیفہ سجادیہ دعاء ص 34 ، ینابیع المودہ 3 ص 417)۔
223 ۔ امام محمد باقر (ع) نے اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے ذیل میں فرمایا کہ اولی الامر صرف ہم لوگ ہیں جن کی اطاعت کا حکم قیامت تک کے صاحبان ایمان کو دیا گیاہے۔( الکافی 1 ص 276 / 1 از برید العجلی)۔
224۔ ابوبصیر ! میں نے آیت اطاعت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ! میں نے عرض کی کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا نے ان کا نام کیوں نہیں لیا؟ فرمایا کہ جب خدا نے نماز کا حکم نازل کیا جب بھی تین رکعت اور چار رکعت کا نام نہیں لیا اور رسول اکرم ہی نے اس کی تفسیر کی ہے، اسی طرح جب زکٰوة کا حکم نازل کیا تو چالیس میں ایک کا ذکر نہیں کیا اور رسول اکرم نے اس کی تفسیر کی ہے، یہی حال حج کا ہے کہ اس میں طواف کے سات چکر کا ذکر نہیں ہے اور یہ بات رسول اکرم نے بتائی ہے تو جس طرح آپ نے تمام آیات کی تفسیر کی ہے، اسی طرح اولی الامر کی بھی تفسیر کردی ہے اور وقت نزول جو افراد موجود تھے ان کی نشاندہی کردی ہے۔ ( الکافی 1 ص 276 ، شواہد التنزیل 1 ص 191 ، 203 ، تفسیر عیاشی 1 ص 229 / 169)۔
225 ۔ امام صادق (ع) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اولو الامر ائمہ اہلبیت (ع) ہیں اور بس ( ینابیع المودة 1 ص 341 / 2 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 /15 ) ۔
226۔ ابن ابی یعفور ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ کے پاس بہت سے اصحاب موجود تھے … تو آپ نے فرمایا ، ابن ابی یعفور ! پروردگار نے اپنی، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ہے جو صیاء رسول اکرم ہیں، دیکھو ہم بندوں پر خدا کی حجت ہیں اور مخلوقات پر اس کی طرف سے نگراں ہیں ، ہمیں زمین کے امین ہیں اور علم کے خزانہ دار، اس کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے، جس نے ہماری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ہماری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔( الزہد للحسین بن سعید ص 104 / 286 ، الکافی 1 ص 185 ، بحار الانوار 23 / 283 ، احقاق الحق ص 224 ، 14 ص 348)۔
10 ۔ اہل الذکر

227۔ رسول اکرم ! فاسئلوا اہل الذکر کے ذیل میں فرمایا کہ ذکر سے مراد میں ہوں اور اہل ذکر ائمہ ہیں ( الکافی 1 ص 210)۔
228 ۔ اما م علی (ع) ! ہم میں اہل ذکر ۔( ینابیع المودہ 1 ص 357 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 98 ، العمدة ص 288 / 468 )۔
229 ۔ حارث ! میں نے امام علی (ع) سے آیت اہل الذکر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ہم ہی اہل ذکر ہیں اور ہمیں اہل علم اور ہمیں معدن تنزیل و تاویل ہیں، میں نے خود رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں شہر علم ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہے، جسے بھی علم لیناہے اسے دروازہ سے آنا ہوگا(شواہد التنزیل 1 ص 432 / 459 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 179)۔
230 ۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ ذکر رسول اکرم ہیں اور ہم ان کے اہل میں اور راسخون فی العلم ہیں اور ہمیں ہدایت کے منارہے اور تقویٰ کے پرچم ہیں اور ہمارے ہی لئے ساری مثالیں بیان کی گئی ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 89)۔
231۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت اہل الذکر کی تفسیر میں فرمایا کہ اہل ذکر ہم لوگ ہیں ۔( تفسیر طبری 10 / 17 ص 5 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 178 ، تفسیر فرات کوفی ص 235 ، 315 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 259 ، تفسیر قمی 2 ص 68)۔
232 ۔ امام باقر (ع) ۔ اہل ذکر عترت پیغمبر کے ائمہ ہیں ۔( شواہد التنزیل 1 ص 437 / 466)۔
233 ۔ ہشام ، میں نے امام صادق (ع) سے آیت اہل الذکر کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ یہ کون حضرات ہیں تو فرمایا کہ ہم لوگ ہیں ۔
میں نے عرض کی تو ہم لوگوں کا فرض ہے کہ آپ سے دریافت کریں ؟ فرمایا بیشک ۔
تو پھر آپ کا فرض ہے کہ آپ جواب دیں ؟ فرمایا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔(امالی طوسی 664 / 1390 ، کافی 1 ص 211)۔
234۔ امام صادق (ع) ! ذکر کے دو معنی ہیں ، قرآن اور رسول اکرم اور ہم دونوں اعتبار سے اہل ذکر ہیں، ذکر قرآن کے معنی میں سورہ نحل 24 میں ہے۔( ینابیع المودہ 1 ص 357 / 14)۔
235۔ امام صادق (ع) مالک کائنات کے ارشاد فاسئلوا اہل الذکر … میں کتاب ذکر ہے اور اہلبیت (ع) و آل محمد اہل ذکر ہیں جن سے سوال کرنے کا حکم دیا گیاہے اور جاہلوں سے سوال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔( کافی 1 ص 295)۔
236 ۔ امام صادق (ع) ، ذکر قرآن ہے اور ہم اس کی قوم ہیں اور ہمیں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔( کافی 1 ص 211 ، تفسیر قمی 2 ص 286)۔(بصائر الدرجات 1 ص 37)۔
237۔ ابن بکیر نے حمزہ بن محمد الطیار سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام صادق (ع) کے سامنے ان کے پدر بزرگوار کے بعض خطبوں کو پیش کیا تو ایک منزل پر پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ اب خاموش رہو!۔
اس کے بعد فرمایا کہ جس بات کے بارے میں تم نہیں جانتے ہو۔مناسب یہی ہے کہ خاموش رہو اور تحقیق کرو اور آخر میں ائمہ ہدی ٰ کے حوالہ کردو تا کہ وہ تمھیں صحیح راستہ پر چلائیں اور تاریکی کو دور کریں اور حق سے آگاہ کریں جیسا کہ آیت فاسئلوا اہل الذکر میں بتایا گیاہے۔( کافی 1 ص 50 ، محاسن 1 ص 341 ، تفسیر عیاشی 2 ص 260)۔
238۔ امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب کے نام ایک خط لکھا، اے دو گروہ جس پر خدا نے مہربانی کی ہے اور اسے کامیاب بنایاہے، دیکھو ! خدانے تمھارے لئے خیر کو مکمل کردیاہے اور یہ بات امر الہی کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دین میں خواہش، ذاتی خیال اور قیاس سے کام لے، خدا نے قرآن کو نازل کردیاہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے، پھر قرآن اور تعلیم قرآن کے اہل بھی مقرر کردئے ہیں اور جنھیں اس کا اہل قررا دیا ہے انھیں بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس میں خواہش، رائے اور قیاس کا استعمال کریں اس لئے کہ اس نے علم قرآن دے کر اور مرکز قرآن بناکر ان باتوں سے بے نیاز بنادیاہے، یہ مالک کی مخصوص کرامت ہے، جو انھیں دی گئی ہے اور وہی اہل ذکر ہیں جن سے سوال کرنے کا امت کو حکم دیا گیا ہے( کافی 8 ص 5 ص 210 ، بحار 23 ص 172 ، امالی طوسی 664 ، / 1290 ، روضة الواعظین ص 224 ، بصائر الدرجات 5 / 37 1 ص 40 ، 23 / 511 ، کامل الزیارات ص 54 ، احقاق الحق 2 ص 482 ، 483 ، 14 ص 371 375)۔
11۔ محافظین دین

239۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا، یا علی (ع) ! میں ، تم تمھارے دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) اور اولاد حسین (ع) کو نو فرزند دین کے ارکان اور اسلام کے ستون ہیں ، جو ہمارا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو ہم سے الگ ہوجائے گا اس کا انجام جہنم ہوگا ۔( امالی مفید ص 217 ، بشارة المصطفی ص 49)۔
240 ۔ رسول اکرم میری امت کی ہر نسل میں میرے اہلبیت (ع) کے عادل افراد رہیں گے جو اس دین سے غالیوں کی تحریف ، اہل باطل کی تزویر اور جاہلوں کی تاویل کو رفع کرتے رہیں گے، دیکھو تمھارے ائمہ خدا کی بارگاہ کی طرف تمھارے قائد ہیں لہذا اس پر نگاہ رکھنا کہ تم اپنے دین اور نماز میں کس کی اقتدار کررہے ہو۔( کمال الدین ص 221 ، قرب الاسناد 77/ 250 مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 245 ، کنز الفوائد 1 ص 330)۔
241 ۔ امام صادق (ع) ! علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں کہ انبیاء و درہم و دینار جمع کرکے اس کا وارث نہیں بناتے ہیں بلکہ اپنی احادیث کا وارث بناتے ہیں لہذا جو شخص بھی اس میراث کا کوئی حصّہ لے لے گویا اس نے بڑا حصّہ حاصل کرلیا لہذا اپنے علم کے بارے میں دیکھتے رہو کہ کس سے حاصل کررہے ہو، ہمارے اہلبیت (ع) میں سے ہر نسل میں ایسے عادل افراد رہیں گے جو دین سے غالیوں کی تحریف ، باطل پر ستوں کی جعل سازی اور جاہلوں کی تاویل کو دفع کرتے رہیں گے ۔( کافی 1 ص 32 ، بصائر الدرجات 10/1)۔
242۔ امام رضا (ع) ! امام بندگان خدا کو نصیحت کرنے والا اور دین خدا کی حفاظت کرنے والا ہوتاہے۔( کافی 1 ص 202 از عبدالعزیز بن مسل)۔
12۔ ابواب اللہ

243 ۔ رسول اکرم ، ہم وہ خدائی دروازے ہیں جن کے ذریعہ خدا تک رسائی ہوتی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ سے طالبان ہدایت ہدایت پاتے ہیں۔( فضائل الشیعہ 50 / 7 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 498 از ابوسعید خدری)۔
244 ۔ امام علی (ع) ، ہمیں دین کے شعار اور اصحاب ہیں اور ہمیں علم کے خزانے اور ابواب میں اور گھروں میں دروازہ کے علاوہ کہیں سے داخلہ نہیں ہوتا اور جو دوسرے راستہ سے آتاہے اسے چور شمار کیا جاتاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 154)۔
245۔ امام علی (ع) ، پروردگار اگر چاہتا تو وہ براہ راست بھی بندوں کو اپنی معرفت دے سکتا تھا لیکن اس نے ہمیں اپنی معرفت کا دروازہ اور راستہ بنادیاہے اور ہمیں وہ چہرہ حق ہیں جن کے ذریعہ اسے پہچانا جاتاہے لہذا جو شخص بھی ہماری ولایت سے انحراف کرے گا یا غیروں کو ہم پر فضیلت دے گا وہ راہ حق سے بہکا ہوا ہوگا اور یاد رکھو کہ تمام وہ لوگ جن سے لوگ وابستہ ہوتے ہیں سب ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں بعض گندے چشمے کے مانند ہیں جو دوسروں کو بھی گندہ کردیتے ہیں اور ہم وہ شفاف چشمے میں جواہر خدا سے جاری ہوتے ہیں اور ان کے ختم ہونے یا منقطع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔( کافی 1 ص 184 ، مختصر بصائر الدرجات ص 55 ، تفسیر فرات کوفی ص 142 / 174)۔
246 ۔ امام صادق (ع) ! اوصیاء پیغمبر وہ دروازہ ہیں جن سے حق تک پہنچا جاتا ہے اور یہ حضرات نہ ہوتے تو کوئی خدا کو نہ پہچانتا پروردگار نے انھیں کے ذریعہ مخلوقات پر حجت تمام کی ہے۔( کافی 1 /193 از ابی بصیر )۔
13 ۔ عرفاء اللہ

247۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں جن کے بارے میں قسم کھاتاہوں کہ یہ برحق ہیں، تم اور تمھارے بعد کے اوصیاء سب وہ عرفاء ہیں جن کے بغیر خدا کی معرفت ممکن نہیں ہے اور وہ عرفا ء میں جن کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جو انھیں پہچانتا ہوگا اور جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور یہی وہ عرفاء ہیں کہ جو ان کا انکار کردے یا وہ اس کا انکار کردیں اس کا انجام جہنم ہے۔( خصال 150 / 183 از نصر العطار)۔
248۔رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) ! تم اور تمھاری اولاد کے اوصیاء جنّت و جہنم کے درمیان اعراف کا درجہ رکھتے ہیں کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جو تمھیں پہچانے اور تم اسے پہچانوا ور جہنم میں وہی داخل ہوگا تو تمھارا انکار کردے اور تم اسے پہچاننے سے انکار کردو ( دعائم الاسلام 1 ص 725 ، ارشاد القلوب ص 298 ، از سلیم بن قیس، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 233 ، تفسیر عیاشی 2 ص 18 / 44 اس روایت میں اولاد کے بجائے تمھارے بعد کے اوصیاء کا لفظ ہے، ینابیع المودہ 1 ص 304 / 3 از سلمان فارسی)۔
249۔ امام علی (ع) ، ائمہ پروردگار کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور بندوں کیلئے عرفاء ہیں کہ جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو انھیں پہچانے اور وہ اس کو پہچانیں اور جہنم میں صرف وہی جائے گا جو ان کا انکار کردے اور وہ اس کا انکار کردیں۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 152 ، غرر الحکم ص 3911)۔
250۔ امام علی (ع) قیامت کے حالات کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اوصیاء اصحاب صراط میں جو صراط پر کھڑے رہیں گے اور جنت میں اسی کو داخل کریں گے جو انھیں پہچانے گا اور وہ اسے پہچانیں گے اور جہنم میں وہی جائے گا جو ان کا انکار کرے گا اور وہ اس کا انکار کریں گے ۔ یہی عرفاء اللہ ہیں جنھیں خدا نے بندوں سے عہد لیتے وقت پیش کیا تھا اور انھیں کے بارے میں فرمایاہے کہ اعراف پر کچھ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے“۔
یہی تما م اولیاء کے گواہ ہوں گے اور رسول اکرم ان کے گواہ ہوں گے۔(بصائر الدرجات ص 498 / 9 از زربن حبیش ، مختصر بصائر الدرجات ص 53)۔
251۔ ہلقام ! میں نے امام باقر (ع) سے ” علی الاعراف رجال “ کے بارے میں دریافت کیا کہ اس سے مراد کیا ہے؟ فرمایا کہ جس طرح قبائل میں عرفاء ہوتے ہیں جو ہر شخص کو پہچانتے ہیں اس طرح ہم عرفاء اللہ میں اور تمام لوگوں کو ان کے علامات سے پہچان لیتے ہیں ( تفسیر عیاشی 2 ص 18 / 43)۔
252۔ ابان بن عمر ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ سفیان بن مصعب العبدی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میری جان قربان،آیتہ ” علی الاعراف رجال“ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا یہ آل محمد کے بارہ اوصیاء ہیں کہ جن کی معرفت کے بغیر خدا کا پہچاننا ناممکن ہے۔
عرض کی یہ اعراف کیا ہے ؟ فرمایا یہ مشک کے ٹیلے ہوں گے جن پر رسول اکرم اور ان کے اوصیاء ہوں گے اور یہ تمام لوگوں کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔(بحار الانوار 24 / 253 / 13 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 233)۔
14۔ ارکان زمین

253۔ امام باقر (ع) ، رسول اکرم وہ دروازہ رحمت میں جس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے ، وہ راہ ہدایت ہیں کہ جو اس پر چلا وہ خدا تک پہنچ گیا یہی کیفیت امیر المومنین (ع) اور ان کے بعد کے جملہ ائمہ کی ہے، پروردگار نے انھیں زمین کا رکن بنایاہے تا کہ اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے اور راہ ہدایت کا محافظ بنایاہے، کوئی راہنما ان کے بغیر ہدایت نہیں پاسکتاہے اور کوئی شخص اس وقت تک گمراہ نہیں ہوتاہے جبتک ان کے حق میں کوتاہی نہ کرے ، یہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے جملہ علوم ،بشارتیں، انذار سب کے امانتدار ہیں اور اہل زمین پر اس کی حجت ہیں ، ان کے آخرکے لئے خدا کی طرف سے وہی ہے جو اول کے لئے ہے اور اس مرحلہ تک کوئی شخص امداد الہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتاہے۔( کافی 1 ص 198 / 3 ، اختصاص ص 21 ، بصائر الدرجات 199/1)۔
254۔ امام باقر (ع) نے امیر المومنین (ع) کی زیارت میں فرمایا آپ اہلبیت (ع) رحمت ، ستون دین ، ارکان زمین اور شجرہ طیبہ ہیں ۔( تہذیب 6 ص 28 ، 53 از موسیٰ بن ظبیان ، الفقیہ 2 ص 591 ، 3197 ، 3197 ، کامل الزیارات ص 45)۔
255۔ امام باقر (ع) ، ہم زمین کی بنیادیں ہیں اور ہمارے شیعہ اسلام کے حاصل کرنے کے وسائل ہی۔(تفسیر عیاشی 2 ص 243 / 18 ، از ابوبصیر)۔
15۔ ارکان عالم

256۔ رسول اکرم اولاد علی (ع) کے ائمہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ سب میرے خلفاء ۔ اوصیاء میری اولاد اور میری عترت ہیں انھیں کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے اور انھیں کے ذریعہ زمین اپنے باشندوں سمیت مرکز سے ہٹنے سے محفوظ ہے۔
(کمال الدین 258 / 3 ، احتجاج 1 ص 168 / 34 ، کفایتة الاثر ص 145 ، از علی بن ابی حمزہ از امام صادق (ع) )۔
257 ۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم مسلمانوں کے امام اور عالمین پر اللہ کی حجت ہیں، مومنین کے سردار اور روشن پیشانی لشکر کے قائد ہیں، ہمیں مومنین کے مولا ہیں اور ہمیں اہل زمین کے لئے باعث امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں ہمیں وہ ہیں جن کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے اور زمین کو اس کے باشندوں سمیت مرکزسے کھسک جنے سے روکتاہے ، ہمارے ہی ذریعہ باران رحمت کا نزول ہوتاہے اور ہمارے ہی وسیلہ سے رحمت نشر کی جاتی ہے اور زمین کے برکات باہر آتے ہیں، اگر زمین کے برکات کا وسیلہ ہم نے ہوتے تو یہ اہل زمین سمیت دھنس جاتی ۔(امالی صدوق (ر) 156 / 15 ، کمال الدین 207 ، 22 ، ینابیع المودة 1ص 75 /11 فرائد السمطین 1 ص 6/45 / 11 روایت اعمش از امام صادق (ع) روضة الواعظین ص 220 روایت عمرو بن دینار)۔
258۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں، ہمارے آقاؤ ! ہم نے تمھاری مدح و ثناکااحصاء کرسکتے ہیں اور نہ تمھاری تعریف کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہین اور نہ تمھاری توصیف کی حدوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، تم نیک کرداروں کے لئے نمونہ، نیک انسانوں کے لئے رہنما، اور پروردگار کی طرف سے حجت ہو، تمھارے ہی ذریعہ آغاز ہوتاہے اور تمھیں پر خاتمہ ہے، تمھارے ہی ذریعہ رحمت کا نزول ہوتاہے اور تمھارے ہی ذریعہ پروردگار آسمان کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے۔( تہذیب 6 ص 99)۔
16۔ امان اہل ارض

259۔ رسول اکرم ! ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں کہ وہ ختم ہوجائیں تو اہل آسمان کا خاتمہ ہوجائے اور اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اہل زمین کیلئے امان ہیں کہ ان کا سلسلہ ختم ہوجائے تو سارے اہل زمین فنا ہوجائیں گے، ( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2ص 671 / 1145 ، الفردوس 4 ص 311 / 6913 ، ینابیع المودة 1 ص 17 / 1 بروایت امام علی (ع) ، امالی طوسی (ر) 379 /812، جامع الاحادیث قمی ص 259 ، بروایت ابن عباس، اس روایت میں اہل زمین کے بجائے امت کا لفظ ہے)۔
260۔ رسول اکرم ، ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں ! اور میرے اہلبیت (ع) اہل زمین کے لئے امان ہیں ، اگر اہلبیت (ع) کا سلسلہ ختم ہوجائے تو وہ عذاب نازل ہوجائے جس کی وعید وارد ہوئی ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 71 / 2 بروایت انس، مستدرک 2 ص 486 / 3676 ، مناقب کوفی ص 142 ، 623 ، علل الشرائع ص 123 / 2)۔
261۔ امام علی (ع) ! ہم نبوت کے گھرانے والے اور حکمت کے معدن ہیں ، اہل زمین کے لئے باعث امان اور طلبگار نجات کے لئے وجہ نجات ہیں ۔( نثر الدر 1 ص 310)۔
17۔ معدن رسالت

262۔ رسول اکرم ! ہم شجرہٴ نبوت کے اہلبیت (ع) اور رسالت کے معدن ہیں، ہمارے اہلبیت (ع) سے افضل ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔( امالی الشجری 1 ص 154 روایت امام علی (ع) ، احقاق الحق 9 ص 378 نقل از مناقب ابن المغازلی)۔
263 ۔ امام حسین (ع) نے عتبہ بن ابی سفیان سے فرمایا، ہم اہلبیت (ع) کرامت ، معدن رسالت اواعلام حق ہیں جن کے دلوں میں حق کو امانت رکھا گیاہے اور وہ ہماری زبان سے بولتاہے۔( امالی صدوق 130 / 1 روایت عبداللہ بن منصور از امام صادق (ع))۔
264 ۔ امام حسین (ع) نے والی مدینہ ولید سے فرمایا، اے حاکم ، ہم لوگ نبوت کے اہلبیت (ع) ہیں اور رسالت کے معدن ، ملائکہ کی آمد و رفت ہمارے گھر رہتی ہے اور رحمت کا نزول ہمارے یہاں ہوتاہے۔ ہمارے ہی ذریعہ پروردگار نے شروع کیاہے اور ہمیں پر ہر امر کا خاتمہ ہے۔( مقتل خوارزمی 1 ص 184 الملہوف ص 98)۔
265۔امام رضا (ع) (ع)! ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے کتاب میں خود اپنی تعریف کی ہے اور رحمت خدا حضرت محمد پر ہے جو خاتم الانبیاء اور بہترین خلائق ہیں اور پھر ان کی آل پر جو آل رحمت ، شجرہٴ نبوت، معدن رسالت اور مرکز رفت و آمد ملائکہ ہیں۔( کافی 5 ص 373 /7 ، عوالی للئالی 2ص 297 / 77 بروایت معاویہ بن حکمی)۔
266۔ ابن عباس ” فاسئلوا اہل الذکر“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت محمد و علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) ہیں کہ یہی اہل ذکر و علم و عقل و بیان ہیں یہی نبوت کے اہلبیت (ع) ، رسالت کے معدن اور مرکز نزول ملائکہ ہیں ۔( احقاق الحق 3 ص 482 ، ا لطرائف 94 / 131 ، نہج الحق 210 بروایت حافظ محمد بن موسی الشیرازی از علماء اہلسنت)۔
267۔ ابن عباس ! روز وفات پیغمبر ملک الموت نے دروازہ فاطمہ (ع) پر کھڑے ہوکر کہا کہ سلام ہو تم پر اے اہلبیت (ع) نبوت ، معدن رسالت، مرکز نزول ملائکہ اور اس کے بعد اجازت طلب کی جس پر جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ بابا ملاقات نہیں کرسکتے ہیں، اور ملک الموت نے تین مرتبہ اجازت لی اور رسول اکرم نے التفات کرکے فرمایا کہ یہ ملک الموت ہیں۔( احقاق الحق 9 ص 402از روضة الاحباب)۔
268۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں سلام ہو تم پر اے اہل بیتِ نبوت، معدن رسالت ، مرکز نزول ملائکہ ، منزل وحی الہی اور مصدر رحمت پروردگار ۔( تہذیب 6 ص 96 / 177)۔
18۔ ستون حق

269۔ رسول اکرم ! یہ سب ائمہ ابرار ہیں، یہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔( کفایة الاثر ص 177 ، روایت عطاء از امام حسین (ع) ) ۔
270 ۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ پروردگار نے انھیں خیر کا اہل ، حق کا ستون اور اطاعت کے لئے تحفظ قرار دیا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 214)۔
271۔ امام علی (ع) ! ہم حق کے داعی ، خلق کے امام اور صداقت کی زبان ہیں، جس نے ہماری اطاعت کی سب کچھ حاصل کرلیا اور جس نے ہماری مخالفت کی وہ ہلاک ہوگیا۔( غرر الحکم 10001)۔
272 ۔ امام علی (ع) ! ہم نے ستون حق کو قائم کیا اور لشکر باطل کو شکست دی ہے۔( غرر الحکم 9969)۔
273۔ امام علی (ع) ! ہم خدا کے بندوں پر اس کے امین اور اس کے شہروں میں حق کے قائم کرنے والے ہیں، ہمارے ہی ذریعہ دوستوں کو نجات ملتی ہے اور دشمن ہلاک ہوتے ہیں ۔(غرر الحکم 10004)۔
274۔ امام علی (ع) ! خبردار حق سے الگ نہ ہوجانا کہ جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کا بدل تلاش کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا او ردنیا و آخرت دونوں سے محروم ہوجائے گا۔( غرر الحکم 10413 ، خصال 626 / 10 ، بروایت ابوبصیر و محمد بن مسلم )۔
275۔ امام حسین (ع) ! ہم رسول اللہ کے اہلبیت (ع) ہیں، حق ہمارے اندر رکھا گیا ہے اور ہماری زبانیں ہمیشہ حق کے ساتھ کلام کرتی ہیں۔( الفتوح 5 ص 17، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 185)۔
276۔ امام ہادی (ع)! اے ائمہ کرام ! حق آپ کے ساتھ آپ کے اندر آپ سے اور آپ کی طرف ہے اور آپ ہی اس کے اہل اور معدن ہیں۔( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔
19 ۔ امراء الکلام

277۔ امام علی (ع) ! ہم کلام کے امراء ہیں، ہمارے ہی اندر اس کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر اس کی شاخیں سایہ افگن ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ 233 ، غرر الحکم ص 2774 ، اس روایت میں عروق و غصون کے بجائے فروغ و اغصان کا لفظ وارد ہوا ہے)۔
278 ۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے ائمہ طاہرین (ع) کو مخلوقات کی زندگی تاریکی کا چراغ اور کلام کی کلید قرار دیاہے۔( کافی 1 ص 204 / 2 روایت اسحاق بن غالب )۔
20۔ صلح و جنگ پیغمبر

279۔ زید بن ارقم ! رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) سے خطاب کرکے فرمایا کہ جس سے تمھاری جنگ ہے اس سے میری جنگ ہے اور جس سے تمھاری صلح ہے اس سے میری صلح ہے۔( سنن ترمذی 5 ص 699 / 3870 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 52 / 145 ، مستدرک 3 ص 161 / 4714 ، المعجم الکبیر 3 ص 40 / 2619 ، مناقب کوفی 2 ص 156 / 634 ، بشارة المصطفیٰ ص 61 ص 64 ، کشف الغمہ 2 ص 154۔
280۔زید بن ارقم ! رسول اکرم نے اپنے مرض الموت میں علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کی طرف جھک کر فرمایا کہ تم سے جنگ کرنے والے کی جنگ مجھ سے ہے اور تم سے صلح رکھنے والے کی صلح مجھ سے ہے۔( تہذیب تاریخ دمشق ص 319 ، امالی طوسی ص 336 / 680)۔
281۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے علی (ع) و حسن (ع) ، حسین (ع) و فاطمہ (ع) کو دیکھ کر فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے اور جو تم سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے۔( مسند ابن حنبل 3 ص 446 / 9704 ، مستدرک 31 ص 161 / 4713 ، تاریخ بغداد ، ص 137 ، المعجم الکبیر 3 ص 40 / 2621 ، البدایة والنہایة 8 ص 36 ، العمدہ 51 /45 ، روضة الواعظین ص 175 ، الغدیر 2 ص 154)۔
282۔ زید بن ارقم ! ہم رسول اکرم کی خدمت میں تھے، آپ حجرہ کے اندر تھے اور وحی کا نزول ہورہاتھا اور ہم باہر انتظار کررہے تھے، یہانتک کہ گرمی شدید ہوگئی اور علی (ع) و فاطمہ و حسن (ع) و حسین (ع) بھی آگئے اور سایہ دیوار میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ، اس کے بعد جب رسول اکرم برآمد ہوئے تو ان حضرات کے پاس گئے اور سب کو ایک چادر اوڑھاکر جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا علی (ع) کے ہاتھ میں، ہمارے پاس آئے اور دعا کی خدایا میں انھیں دوست رکھتاہوں تو بھی ان سے محبت فرمانا۔
میں ان سے صلح کرنے والے کا ساتھی ہوں اور ان سے جنگ کرنے والے کا ، دشمن ہوں… اور یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔(اشرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی 3 ص 207)۔
283۔ رسول اکرم نے مسلمانوں سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا ، مسلمانوا! جو اہل خیمہ کے ساتھ صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے، میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، ان کا دوست صرف خوش نصیب اور حلال زادہ ہوتا ہے اور ان سے دشمنی صرف بدقسمت اور پست نسب انسان کرتاہے۔( مناقب خوارزمی ص 297 / 291 ، روایت زید بن یثیع از ابی بکر)۔
واضح رہے کہ اس وقت خیمہ میں صرف علی (ع) و فاطمہ (ع) حسن(ع) و حسین (ع) تھے اور بس۔
284۔ امام زین العابدین (ع) ! ایک اور رسول اکرم تشریف فرماتھے اور ان کے پاس حضرت علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر بناکر بھیجا ہے کہ روئے زمین پر خدا کی نگاہ میں ہم سب سے زیادہ محبوب اور محترم کوئی نہیں ہے ، پروردگار نے میرا نام اپنے نام سے نکالاہے کہ وہ محمود ہے اورمیں محمد ہوں اور یا علی (ع) تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ علی اعلیٰ ہے اور تم علی (ع) ہو اور اے حسن (ع) ہو اور اے حسین (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ ذو الاحسان ہے اور تم حسین (ع) ہو اور اے فاطمہ (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے مشتق کیا ہے کہ وہ فاطر ہے اورتم فاطمہ (ع) ہو،
اس کے بعد فرمایا کہ خدایا میں تجھے گواہ کر کے کہتاہوں کہ جو ان سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے میں ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن ہوں۔ ان سے بغض رکھنے والے سے مجھے بغض ہے اور ان سے محبت کرنے والے سے میری محبت ہے۔ یہ سب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔( معانی الاخبار 55/3 روایت عبداللہ بن الفضل الہاشمی)۔
21 ۔ آغاز و انجام دین

285۔رسول اکرم ! اللہ نے دین کا آغاز و انجام ہمیں کو قرار دیا ہے اور وہ ہمارے ہی ذریعہ بغض و عداوت کے بعد دلوں میں الفت پیدا کرتاہے،(امالی مفید 251 / 4 ، امالی طوسی 21 /24 روایت عمر بن علی (ع) )۔
286 ۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے اپنے بعد کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے مہدی کے بارے میں فرمایا تو میں نے عرض کی کہ وہ ہم میں سے ہوگا یا غیروں میں سے ؟ فرمایا ، ہمیں میں سے ہوگا ، پروردگار نے ہمارے ہی ذریعہ دین کا آغاز کیا ہے، اور ہمیں پر تمام کرے گا، ہمارے ہی ذریعہ شرک کے بعد دلوں میں الفت پیدا کی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ فتنہ کے بعد الفت پیدا کرے گا ! تو میں نے عرض کی خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ فضل و شرف عنایت فرمایاہے۔( امالی طوسی (ر) 66 / 96 ، امالی مفید (ر) 9 ص 290 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 9 ص 206)۔
287۔ عمر بن علی (ع) نے امام علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم سے پوچھا کہ مہدی ہم میں ہوگا یا ہمارے غیر میں سے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں میں سے ہوگا اللہ ہمارے ہی ذریعہ دین کو مکمل کرے گا جس طرح ہمارے ہی ذریعہ آغاز کیا ہے اور لوگوں کو شرک سے نکالا ہے، اب فتنوں سے نکال کر دلوں میں الفت پیدا کرے گا جس طرح شرک کی عداوت کے بعد الفت پیدا کی ہے۔
میں نے عرض کی کہ یہ لوگ مومن ہوں گے یا کافر ؟ فرمایا کہ فتنہ میں مبتلا اور کافر ( المعجم الاوسط 1 ص 57 / 157 ، الحادی الفتاوی 2 ص 217)۔
288 ۔ امام علی (ع) ، رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) اس امر کا آغاز بھی تمھیں سے ہے اور اختتام بھی تمھیں پر ہوگا، صبر کرنا تمھارا فرض ہے کہ انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ کے ہاتھوں میں ہے۔( امالی مفید 110 / 9 روایت محمد بن عبداللہ از امام رضا (ع))۔
289 ۔ امام علی (ع) ! اللہ نے ہمیں سے اسلام کا افتتاح کیا ہے اور ہمیں پر اس کااختتام کرے گا ۔( احتجاج 1 ص 544 / 131 روایت اصنبع بن نباتہ)۔
290۔ امام علی (ع) ، ہمیں سے اللہ افتتاح کرتاہے اور ہمیں پر کام کا اختتام ہوتاہے۔( خصال 626 / 10 روایت ابو بصیر و محمد بن مسلم )۔
291 ۔ امام علی (ع) ! ایھا النّاس ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے جھوٹ کو دور رکھاہے اور ہمارے ہی ذریعہ زمانہ کے شر سے نجات دیتاہے، ہمارے ہی واسطہ سے تمھاری گردنوں سے ذلت کے پھندے کو جدا کرتاہے اور ہمیں سے آغاز و اختتام ہوتاہے۔( کتاب سُلَیم بن قیس 2 ص 717 / 17 )۔
292 ۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ! تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھین کدھر لیجایا جارہاہے؟ اللہ نے ہمارے ذریعہ تمھارے اول کو ہدایت دی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ آخر میں اختتام کرے گا۔( کافی ص 271 / 5 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 189 ، 190 روایت ابوبکر الخصرمی)۔
293 ۔ امام رضا (ع) ! ہمارے ہی ذریعہ خدا نے دین کا آغاز کیاہے اور ہمارے ہی ذریعہ ختم کرے گا۔( تفسیر قمی 2 ص 104 از عبداللہ بن جندب)۔
294 ۔ امام ہادی (ع) ! زیارت جامعہ … آپ ہی حضرات کے ذریعہ خدا شروع کرتاہے اور آپ ہی پر خاتمہ کرتاہے۔( تہذیب 6 ص 99 / 177 ، کامل الزیارات ص 199 ، بحار الانوار 23 ص 218 / 19 / 26 ، 248 / 18 ، احقاق الحق 13 ص 128 ، مجمع الزوائد ص 616 / 12409 ، کنز العمال 4 ص 598 / 39682)۔
22 ۔ان کا قیاس ممکن نہیں ہے

295۔ رسول اکرم ، ہم اہل بیت وہ ہیں جن پر کسی کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے ۔( الفردوس 4 ص 283 ، 6838 ، فرائد السمطین 1 ص45 ، ذخائر العقب ص 17 ، روایت انس ، ینابیع المودہ 2 ص 114/322 روایت ابن عباس)۔
296 ۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کا مقابلہ کسی شخص سے نہیں کیا جاسکتاہے، جو ہمارا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے۔( ارشاد القلوب ص 404)۔
297 ۔ امام علی (ع) ! آل محمد پر اس امت میں سے کسی شخص کا قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور ان کے برابر اسے نہیں قرار دیا جاسکتاہے جس پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ رہاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 2، غرر الحکم 10902)۔
298۔امام علی (ع)، ہم اہلبیت (ع) ہیں، ہم پر کسی آدمی کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے۔ہمارے گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہمارے یہاں رسالت کا معدن ہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 66 / 297 ، کشف الغمہ 1 ص 40)۔
299۔امام علی (ع) ! ہم نجیب افراد ہیں، ہماری اولاد انبیاء کی اولاد ہیں اور ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے ، ہمارا باغی گروہ شیطانی گروہ ہے اور جوہمارے اور دشمن کے درمیان مساوات قائم کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 279 / 1160 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 144 / 1189 ، امالی طوسی (ر) 270 / 502 ، بشارة المصطفیٰ ص 128 روایت حبہ عرنی ، مناقب امیر المؤمنین (ع) کوفی 2 ص 107۔
300۔ حارث ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) کا قیاس لوگوں پر نہیں کیا جاسکتاہے… تو ایک شخص نے ابن عباس سے دریافت کیا ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ انھوں نے کہا بیشک ! جس طرح پیغمبر کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے اور علی (ع) کے بارے میں تو صاف اعلان قدرت ہے“ جن لوگوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا وہ بہترین مخلوقات ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 68 نقل از کتاب ” ما نزل من القرآن فی علی (ع) “ ابونعیم اصفہانی )۔
301۔عباد بن صہیب ! میں نے امام صادق سے دریافت کیا کہ ابوذر افضل ہیں یا آپ اہلبیت (ع)! فرمایا ابن صہی ! سال کے کتنے مہینے ہوتے ہیں ؟
میں نے عرض کی بارہ … فرمایا محترم کتنے ہیں ؟
میں نے عرض کی چار
فرمایا کیا ماہ رمضان ان میں ہے؟ میں نے عرض کی نہیں
فرمایا پھر ماہ رمضان افضل ہے یا یہ چار؟
میں نے عرض کی ماہ رمضان
فرمایا اسی طرح ہم اہلبیت (ع) ہیں کہ ہمارا قیاس کسی پر نہیں کیا جاسکتاہے اور یاد رکھو کہ خود ابوذر اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب اصحاب میں افضلِ اصحاب کے بارے میں بحث ہورہی تھی تو ابوذر نے کہا کہ افضلِ اصحاب علی (ع) بن ابی طالب ہیں ، کہ وہی قسیم جنت و نار ہیں اور وہی صدیق و فاروق امت ہیں اور وہی قوم پر پروردگار کی حجت ہیں… جس پر ہر شخص نے منہ پھیر لیا اور ان کی تکذیب کرنے لگا ، یہاں تک کہ ابوامامہ باہلی نے رسول اکرم کو واقعہ کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایسے شخص پر آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے اس کا بوجھ نہیں اٹھایا جو ابوذر سے زیادہ صادق القول ہو۔( علل الشرائع 3 / 177)۔
جامع خصوصیات

302۔ رسول اکرم ! پروردگار نے مجھ میں اور میرے اہلبیت (ع) میں فضیلت، شرف، سخاوت، شجاعت، علم اور حلم سب کو جمع کردیاہے، ہمارے لئے آخرت ہے اور تمھارے لئے دنیا ۔ ( ینابیع المودة 2 ص 302 / 863 از ابن عمر، احقاق الحق 18 ص 532 از مودة القربیٰ )۔
303 ۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کو سات فضائل دئے گئے ہیں جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیئے گئے ہیں اور نہ ہمارے بعد دیئے جائیں گے صباحت ، فصاحت، سماحت، شجاعت، حلم، علم ، خواتین کی قدردانی و محبت (الجعفریات ص 182 ، نوادر راوندی ص 15 ، مناقب ابن مغازلی 295 / 337)۔
304 ۔ رسول اکرم ! میں نے پروردگار سے دعا کی کہ علم و حکمت کو میری اولاد اور میری کشتِ حیات میں قرار دیدے تو میرے دعا قبول ہوگئی ۔( ینابیع المودة 1 ص 74/ 9 ، کفایة الاثر ص 165 لفظ زرعی تک)۔
305 ۔ رسول اکرم پروردگار عالم نے ہم میں دس خصائل کو جمع کردیا ہے جو نہ ہم سے پہلے کسی میں جمع ہوئے ہیں اور نہ ہمارے بعد ہوں گے۔
حکمت ، علم ، نبوت، سماحت، شجاعت، میانہ روی ، صداقت، عبادت، عفت … ہم کلمہ تقویٰ ، سبیل ہدایت۔ مثل اعلیٰ ، حجت عظمیٰ ، عروة الوثقیٰ اور حبل المتین میں اور ہمیں وہ ہیں جن کی محبت کا حکم دیا گیا اور ” ہدایت کے بعد ضلالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو تم لوگ کدھر لے جائے جارہے ہو“ ۔( خصال432/14 از عبداللہ بن عباس ، تفسیر فرات کوفی 178 / 203 ، 307 / 412)۔
306۔ رسول اکرم ! دربارہٴ علی (ع) ! یہ سید الاوصیاء ہیں، ان سے ملحق ہوجانا سعادت ہے اور ان کی اطاعت پر مرنا شہادت ہے، ان کا نام توریت میں میرے نام کے ساتھ ہے اور ان کی زوجہ میری دختر صدیقہ کبریٰ ہے اور ان کے فرزند میرے فرزند سرداران جوانان جنت ہیں، یہ تینوں اور ان کے بعد کے تمام ائمہ انبیاء کے بعد مخلوقات پر اللہ کی حجت ہیں ، یہ سب امت میں میرے علم کے دروازے ہیں ،جو ان کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو ان کی اقتدا کرے گا اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل جائیگی۔ پروردگار نے کسی شخص کو ان کی محبت نہیں عطا فرمائی مگر یہ کہ وہ داخل جنت ہوگیا۔( امالی صدوق 28 / 5 ، مشارق انوار الیقین ص 56 ، حلیة الابرار 1 ص 235)۔
307۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) شجرہٴ نبوت ، محل رسالت ، مرکز رفت و آمد ملائکہ ، بیت رحمت ا ور معدن علم ہیں ۔( کافی 1 ص 221 ، بصائر الدرجات 1 ص 56 )۔
308 ۔ امام علی (ع) ! پروردگار نے ہمیں پانچ خصوصیات عنایت فرمائے ہیں فصاحت صباحت ، بخشش ، نجدہ ( دلیری) عورتوں کے نزدیک محبت ۔(خصال 286 / 40 ، نثر الدرر 1 ص 270)۔
309 ۔ امام علی (ع) ! جب آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ بنو مخزوم گل قریش ہیں ، ہم ان کے مردوں کی گفتگو کو پسند کرتے ہیں اور ان کی عورتوں سے عقد کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں ، لیکن بنو عبد شمس انتہائی بے عقل اور بخیل ہیں اور ہم اہلبیت (ع) اپنی دولت کے عطا کرنے والے، ہنگام موت جان قربان کرنے والے ہی ں، بنوعبد شمس اکثریت میں ہیں لیکن مکار اور بدصورت ہیں اور ہم صاحبان فصاحت و نصیحت و صباحت ہیں ۔( نہج البلاغہ حکمت ص 120)۔
310۔ امام علی (ع) ! اہلبیت (ع) ہی کے گھر میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانے ہیں ، جب بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور جب چپ رہتے ہیں تب بھی کوئی ان سے آگے نہیں جاسکتاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 154 )۔
311 ۔ امام علی (ع) (ع)! خدا کی قسم ہمیں تبلیغ رسالت ، ایفائے وعدہ اور تمام کلات کا علم دیا گیاہے، ہمارے پاس حکم کے پاس حکم کے ابواب اور امر کی روشنی ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 120)۔
312۔ امام علی (ع) ہمارے ذریعہ تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی ہے اور بلندیوں کی منزل تک پہنچے ہو اور ہمارے ہی ذریعہ اندھیروں سے روشنی میں آئے ہو۔ وہ کان بہرے ہیں جو حرف حق کو سنن نہ سکیں اور ہلکی آواز کو وہ کیا محسوس کرے گا جسے شور و شعب نے بہرہ بنادیاہے مطمئن وہی دل ہے جو مسلسل دھڑکتارہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 4)۔
313 ۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ ہم اہلبیت (ع) حکمت کے ابواب ، ظلمت کے نور ، اور امت کی روشنی ہیں ۔( غرر الحکم ص 2786)۔
314 ۔ امام علی (ع) ! ہم زمین و آسمان کے انوار اور نجات کے سفینے ہیں، ہمارے ہی پاس پوشیدہ ، اسرار علم ہیں اور ہماری ہی طرف امور کی بازگشت ہے ، ہمارے مہدی کے ذریعہ تمام دلائل کو قطع کیا جائے اور وہ خاتم الائمہ ۔ہوگا، وہی امت کو تباہی سے نکالنے والا ہوگا اور وہ نور کی انتہا، خدا کا راز سربستہ ہوگا، خوش بخت ہے وہ جو ہم سے متمسک ہوجائے اور ہماری محبت پر محشور ہو۔(تذکرة الخواص ص 130 ، مروج الذھب 1 ص 33)۔
315۔ امام علی (ع) ! ایھا الناس ، ہم حکمت کے دروازے ، رحمت کی کلید، امت کے سردار، کتاب کے امین ، حرف آخر کہنے والے ہیں ہمارے ہی وسیلہ سے ثواب ملتاہے اور ہماری ہی مخالفت میں عذاب ملتاہے۔( مشارق انوار الیقین ص 51)۔
316۔ ابوحمزہ ثمالی کا بیان ہے کہ امیر المومنین (ع) نے خطبہ ارشاد فرمایا تو حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو رسالت کے لئے منتخب کیا اور وحی کے ذریعہ باخبر بنایا اور لوگوں میں درجہ کمال عنایت فرمایا۔ ہم اہلبیت (ع) کے گھر میں علم کے مرکز ، حکمت کے ابواب اور امور کی وضاحت ہے، جو ہم سے محبت کرے گا اس کا ایمان کارآمدہوگا اور عمل بھی مقبول ہوگا اور جو ہم سے محبت نہ کرے گا اس کا ایمان بے فائدہ ہوگا اور عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا ۔( بصائر الدرجات 365 / 12 )۔
317 ۔ جناب فاطمہ (ع) ! ( خطبہ فدک کے ذیل میں ) پروردگار نے ایمان کو لازم قراردیاتا کہ تمھیں شرک سے پاک کرے اور ہماری اطاعت کو ملت کا نظام اور ہماری امامت کو تفرقہ سے امان کا ذریعہ قرار دیا ، ہماری محبت عزت اسلام ہے ، ہم ہمیشہ حکم دیتے رہے اور تم عمل کرتے رہے یہانتک کہ اسلام کی چکی ہماری بدولت چلنے لگی اور فوائد حاصل ہونے لگے شرک کا نعرہ دب گیا اور جنگ کی آگ بجھ گئی ، ہنگاموں کی آواز دھیمی پڑگئی اور دین کا نظام مرتب ہوگیا ۔( بلاغات النساء ص 30 روایت زید بن علی (ع) ، احتجاج 1 ص 258 ، 271 ، کشف الغمہ 2 ص 109 ، 117 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 207 ، دلائل الامامة 113 / 36 )۔
318 ۔ جناب فاطمہ (ع) ! اللہ سے ڈرو جوڈر نے کا حق ہے ، ہم مخلوقات میں اس کا وسیلہ اور اس کے خواص ہیں ، ہم اس کی پاکیزگی کا مرکز اور غیب میں اس کی حجت ہیں اور ہمیں انبیاء کے وارث ہیں۔( شرح نہج البلاغہ 16 ص 211 از کتاب ابوبکر احمد بن عبدالعزیز الجوہری ، دلائل الامامة 113/ 36)۔
319۔ امام حسین (ع) بروز عاشور
ہم اس علی (ع) کے فرزند ہیں جو بنئ ہاشم میں سب سے افضل ہے اور یہی ہمارے فخر کے واسطے کافی ہے۔
ہمارا جد رسول اکرم ہے جوروئے زمین پر قدرت کا روشن چراغ ہے۔
ہماری مادر گرامی فاطمہ (ع) بنت رسول ہیں اور ہمارے چچا حضرت جعفر طیار ہیں۔
ہمارے ہی گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہمارے ہی یہاں ہدایت اور وحی کا مرکز ہے۔
ہم مخلوقات کے لئے وجہ امان ہیں اور اس بات کا خفیہ و اعلانیہ ہر طرح وجود پایا جاتاہے۔
ہم حوض کوثر کے مختار ہیں جہاں اپنے دوستوں کو رسول اکرم کے جام سے سیراب کریں گے۔
ہمارے شیعہ بہترین شیعہ ہیں اور ہماری دشمن روز قیامت خسارہ میں رہیں گے۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 /80 ، احتجاج 2 ص 25 ، ینابیع المودة 3 ص 75 ، موسوعہ کلمات الامام الحسین (ع) 498 / 286)۔
320 ۔ امام زین العابدین (ع) ( خطبہ دربار یزید)
ایھا النّاس ہمیں چھ کمالات دیئے گئے ہیں اور سات اعتبارات سے فضیلت دی گئی ہے ، ہمارے لئے قدرت کے عطایا علم ، حلم ، سماحت ، فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت ہے اور ہماری فضیلت کے جہات یہ ہیں کہ رسول مختار ہمیں میں سے ہیں ، صدیق ( حضرت علی (ع) ) ہمیں میں سے ہیں ۔طیار ( جعفر ) ہمیں میں سے ہیں… اسداللہ و اسدالرسول (حمزہ) ہمیں میں سے ہیں و سیدة نساء العالمین فاطمہ (ع) بتول ہمیں میں سے ہیں ، سبطین امت سرداران جوانان اہل جنت ہمیں میں سے ہیں ۔( مقتل الحسین خوارزمی 2 ص 69)۔
واضح رہے کہ ساتویں فضیلت یہ ہے کہ مہدی امت بھی ہمارے ہی گھرانے کی ایک فرد ہے۔(جوادی)
221۔ امام زین العابدین (ع) ! اہلبیت (ع) ایک مبارک شجرہ کی شاخیں ہیں اور ان منتخب افراد کی نسل ہیں جنھیں ہر رجس سے دور رکھا گیا ہے اور کمال طہارت کی منزل پر رکھا گیا ہے، اللہ نے انھین تمام عیوب سے دور رکھاہے اور ان کی موت کو قرآن میں واجب قرار دیاہے، یہی عروة الوثقیٰ ہیں اور یہی معدن تقویٰ ہیں ، بہترین ریسمان ہدایت اور مضبوط ترین وسیلہ ٴ نجات ( ینابیع المودة 2 ص 367 ، کشف الغمہ 2 ص 311 ، صواعق محرقہ ص ص 152)۔
332 ۔ امام (ع) باقر ! ہم حجت خدا ، باب اللہ ، لسان اللہ ، وجہ اللہ ، عین اللہ اور بندوں میں والی امر الہی ہیں ۔( کافی 1 ص 145 ، بصائر الدرجات 1 ص 61 ، بحار الانوار 25 ص 384)۔
323 ۔ امام محمد باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) رحمت ، شجرہٴ نبوت ، معدن حکمت، محل نزول ملائکہ اور مرکز نزول وحی الہی ہیں ۔( ارشاد 2 ص 168 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 206 ، الخرائج و الجرائح 2 ص 892 ، بصائر الدرجات 5 ص 57 ، حلیة الابرار 2 ص 95)۔
324۔امام باقر (ع) ! ہم وہ ہیں جن سے آغاز ہوتاہے اور ہم وہ ہیں جن پر اختتام ہوتاہے، ہم ائمہ ہدی اور تاریکیوں کے چراغ ہیں ، ہمیں ہدایت کے منارے ہیں ، ہمیں سب سے سابق ہیں اور ہمیں سب سے آخر ہیں۔( کمال الدین ص 206 / 20 ، امالی طوسی 654 /1354 ، بصائر الدرجات 63 / 10 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 206 ، ارشاد القلوب ص 418 روایت خثیمہ الجعفی )۔
325۔ امام باقر (ع) ! ہم جب کسی شخص کو دیکھتے ہیں تو اسے حقیقت ایمان اور حقیقت نفاق دونوں کے ذریعہ پہچان لیتے ہیں ۔( کافی 1 ص 238، عیون اخبار الرضا 2 ص 227 ، اختصا ص 278 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 188 ، بصائر الدرجات 5 ص 288)۔
326 ۔ امام صادق (ع) ! ہم وہ قوم ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے ، انفاق ہمارے ہی لئے ہیں اور منتخب اموال بھی ہمارا ہی حصہ میں ہمیں راسخوں فی العلم ہیں اور راسخوں فی العلم ہیں اور ہمیں وہ محسود ہیں جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے کیا یہ لوگ ہمارے بندوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ ہم نے انھیں اپنے فضل سے بہت کچھ عطا کردیا ہے۔( کافی 1 ص 186 ، تہذیب 4 ص 132 ، تفسیر عیاشی 1 ص 247 ، بصائر الدرجات ص202)۔
237 ۔ امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) ہیں ہمارے پاس علم کے مرکز ، نبوت کے آثار ، کتاب کا علم اور فیصلہ کی مکمل صلاحیت ہے۔( اختصاص ص 309 ، بصائر الدرجات 4 ص 363)۔
328 ۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے ذریعہ اپنے دین کی وضاحت کی ہے اور ہدایت کے راستہ کو روشن کیا ہے اور علم کے چشموں کو جاری کیا ہے۔( کافی 1 ص 20 ، الغیبتہ نعمانی ص 224 )۔
329 ۔ امام صادق (ع) ! ہم شجرہ نبوت، بیت رحمت ، مفاتیح حکمت، معدن علم ، محل رسالت، مرکز آمد و رفت ملائکہ ، موضع راز الہی ، بندوں میں اللہ کی امانت، خدا کا حرم اکبر ، مالک کا عہد و پیمان ہیں، جو ہمارے عہد کو وفا کرے گا اس نے عہد الہی کو وفا کیا ہے اور جس نے ہمارے عہد کی حفاظت کی اس نے عہد الہی کی حفاظت کی ، اور جس نے اسے توڑ دیا اس نے عہد الہی کو توڑ دیا ۔( کافی 1 ص 221 ، بصائر الدرجات 57)۔
330۔امام صادق (ع) ! ہم شجرہ نبوت، معدن رسالت، مرکز نزول ملائکہ، عہد الہی، امانت و حجت پروردگار ہیں ۔( تفسیر قمی 2 ص 28)۔
331۔ امام صادق (ع) ! ہم شجرہٴ علم اور اہل بیت النبی ہیں، ہمارے گھر میں جبریل کا نزول ہوتا تھا، ہم علم کے خزانہ دار اور وحی الہی کے معاون ہیں، جس نے ہمارااتباع کیا وہ نجات پاگیا اور جس نے ہم سے علیحدگی اختیار کی وہ ہلاک ہوگیا اور یہ پروردگار کا عہد ہے۔( امالی صدوق (ر) ص 253 ، روضة الواعظین ص 299 ، بشارة المصطفیٰ ص 54)۔
332 ۔ امام صادق (ع) ! ہم بندوں میں حجت پروردگار اور مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں ، وحی کے امانتدار ہیں اور علم کے خزانہ دار، ہم وہ چہرہ الہی ہیں جس کی طرف رخ کیا جاتاہے اور مخلوقات میں اس کی چشم بینا، زبان گویااور قلب واعی ہیں، ہمیں وہ باب ہیں جو اس تک پہچاتاہے اور اس کے امر کے جاننے والے، اس کی راہ کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں ، ہمارے ہی ذریعہ سے خدا کو پہچانا گیا اور اس کی عبادت کی گئی ہے اور ہمیں اس کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں ، ہم نہ ہوتے تو کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوتا۔( توحید 152 /9)۔
333۔امام صادق (ع) ! ہم ہر خیر کی اصل ہیں اور ساری نیکیاں ہماری فروع ہیں، نیکیوں میں عقیدہ توحید، نماز، روزہ ، غصہ کو ضبط کرنا ، خطاکار کو معاف کردینا ، فقیروں پر رحم کرنا ، ہمسایہ کا خیال رکھنا ، صاحبان فضل کے فضل کا اقرار کرنا سب شامل ہیں،ہمارے دشمن برائیوں کی جڑ ہیں اور ان کے فروع میں ہر برائی اور بدکاری شامل ہے جس میں سے جھوٹ، بخل ، چغلخوری ، قطع رحم، سود خواری، مال یتیم کا کھا جانا، حدود الہی سے تجاوز کرنا ، فواحش کا ارتکاب، چوری اورا سکے جملہ امثال ہیں ۔
جھوٹا ہے وہ شخص جس کا خیال یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے اور پھر ہمارے اغیار کے فروع سے وابستہ ہے۔( کافی 8 ص 242 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 22)۔
334۔امام صادق (ع) ! ہم کتاب خدا کی کلیدہیں ہمارے ہی ذریعہ اہل علم بولتے ہیں ، ہم نہ ہوتے تو سب گونگے رہ جاتے۔(اختصاص ص 90 ، بروایت حمید بن المثنئ العجل)۔
335 ۔ امام رضا (ع) ! ہم مخلوقات پر اللہ کی حجت اور بندوں میں اس کے خلیفہ ہیں۔اس کے راز کے امانتدار ، کلمہ تقویٰ اور عروة الوثقیٰ ہیں۔( کمال الدین 6 ص 202 ، ارشاد القلوب ص 417)۔
336 ۔ امام رضا (ع) ! ہم آل محمد جادہٴ وسطیٰ ہیں ، غالی ہم کو پا نہیں سکتاہے اور پیچھے رہ جانے والا ہم سے آگے نہیں جاسکتاہے۔( کافی 1 ص 101 ، ا لتوحید 114 / 13)۔
337۔امام رضا (ع) ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے بچے بزرگوں کے مکمل وارث ہوتے ہیں۔( کافی 1 ص 320، ارشاد 2 ص 276 ، اختصاص ص 279 ، بصائر الدرجات ص 296 ، الخرائج والجرائح 2 ص 899 / 4 روایت معمر بن خلاد)۔
338۔ امام رضا (ع) ! ہماری آنکھیں دوسرے لوگوں جیسی نہیں ہیں ، ہم میں ایک ایسا نور پایا جاتاہے جس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 245 / 427 ، بصائر الدرجات ص 419)۔
239۔ امام جواد (ع) ! ہم میں جو شخص بھی ہے وہ امر الہی کے ساتھ قیام کرنے والا اور دین خدا کی ہدایت دینے والا ہے۔( کمال الدین 378 ، احتجاج 2 ص481)۔
340۔ امام جواد (ع) ! حمد سے اس خدا کے لئے جس نے ہمیں اپنے نور اور اپنے دست قدرت سے خلق کیا اور تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا اور تمام کائنات کے لئے اپنا امین بنادیا۔( دلائل الامة 384 / 342 روایت محمد بن اسماعیل از عسکری ، مناقب ابن شہر آشوب 4 387)۔
342۔امام ہادی (ع) ! ہم وہ کلمات الہی ہیں جو تمام نہیں ہوسکتے اور ہمارے فضائل کا ادراک نہیں ہوسکتاہے۔( اختصاص ص 94 ، تحف العقول ص 479 از موسی المبرقع ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 404 ، احتجاج 2 ص 499 / 331 ” بغیر اسناد“)۔
343۔ موسیٰ بن عبداللہ النخعی کہتے ہیں کہ میں نے امام علی نقی (ع) سے گزارش کی کہ مجھے ایک ایسے جامع اور بلیغ کلام کی تعلیم دیں جس کے ذریعہ آپ حضرات میں ہر ایک کی زیارت کرسکوں ؟ فرمایا غسل کرکے حرم کے دروازہ پر جاکر کھڑے ہوجاؤ اور کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کرکے یوں کہو۔
” سلام ہو آپ حضرات پر اے اہلبیت(ع) نبوت اور معدن رسالت ملائکہ کی رفت و آمد کے مرکز اور وحی کے نزول کی منزل ، رحمت کے معدن اور علم کے خزانہ دار، حلم کی منزل آخر اور کرم کے اصول ، امتوں کے قائد اور نعمتوں کے مالک ،نیک بندوں کی اصل اورنیک کردار وں کے ستون، بندوں کے منتظم اور شہروں کے ارکان، ایمان کے ابواب اور رحمان کے امانتدار، انبیاء کی ذریت اور مرسلین کے منتخب روزگار اور رب العالمین کے پسندیدہ بندہ کی عترت … اور آپ ہی پر تمام رحمتیں اور برکتیں ہوں ۔( تہذیب 6 ص 95 / 177)۔
مولف ! اس مقام پر اس مکمل زیارت کا مطالعہ ضروری ہے کہ اس سے تمام خصائص اہلبیت (ع) کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
344 ۔ اما عسکری (ع) ! ہم پناہ کے طلب گاروں کی جائے پناہ، روشنی حاصل کرنے والوں کی روشنی ، تحفظ چاہنے والوں کے لئے وسیلہ حفاظت ہیں ، جو ہم سے محبت کرے گا ہمارے ساتھ بلندترین منزل پر ہوگا اور جو ہم سے انحراف کرے گا اس کی جگہ جہنم ہوگی۔( رجال کشی 2 ص 814 / 1018 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 435 ، الخرائج والخرائج 2 ص 840 / 54 ، کشف الغمہ 3 ص 211 روایت محمد بن الحسن بن میمون)۔
3 ۔ امام مہدی (ع) ! اللہ نے انھیں اوصیاء کے ذریعہ دین کو زندہ رکھا، نور کو تمام کیا اور ان کے اوران کے تمام برادران ، ابناء عم، قرابتداروں کے درمیان واضح فرق رکھا کہ جس کے ذریعے حجت کو اس سے جس پر حجت تمام کی جائے اور امام کو ماموم سے جدا کردیا جائے ، انھیں گناہوں سے محفوظ اور عیوب سے پاکیزہ کردیا ، کثافت سے پاک رکھا اور شبہات سے منزل قرار دیا ، انھیں علم کا خزانہ دار، حکمت کا امانتدار اور اسرار کی منزل قرار دیا اور پھر دلائل سے ان کی تائید کی کہ ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ ایسے جیسے ہوجاتے اور ہر شخص امر آلہی کا دعویدار بن جاتا، نہ حق باطل سے الگ پہچانا جاتا اور نہ عالم و جاہل میں کوئی امتیاز ہوتا ۔(الغیبتہ طوسی (ر) ص 288 / 246، احتجاج ج2 ص 540 / 343 روایت احمد بن اسحاق )